قربانی کی عیدتاریخ ، فلسفہ اور پیغام

   

قربانی درحقیقت حضرت ابراہیم اور حضرت اسمعیل علیھما الصلاۃ والسلام کی جاں نثاری کی عظیم یادگار ہے کہ جب حضرت ابراھیم علیہ السلام، اﷲ تعالیٰ کے اشارہ پر ضعیفی کی عمر میں اپنے اکلوتے جوان لڑکے کو اﷲ تعالیٰ کی راہ میں قربان کرنے کیلئے آمادہ ہوئے ۔
قربانی صرف حضرت ابراھیم علیہ السلام کے جذبۂ قربانی کی یادگار نہیں بلکہ اس میں حضرت اسمعیل علیہ السلام بھی برابر کے شریک ہیں۔ چنانچہ حضرت ابراھیم علیہ السلام نے حکم خدا کااظہار اپنے فرزند دلبند سے کیا اور فرزند نے جس جذبۂ تسلیم و رضا سے جواب دیا ، وہ سارا مکالمہ قرآن مجید نے قیامت تک کے لئے اپنے سینے میں آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ کیا۔( سورۃ الصفت: ۹۹۔۱۱۳)
یہ عظیم قربانی درحقیقت بی بی ہاجر کے بطنی فرزند حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی تھی، بی بی سارہ کے بطن سے تولد ہوئے دوسرے فرزند حضرت اسحق علیہ السلام کی نہ تھی ۔ بائبل میں قربانی کے واقعہ کو حضرت اسحق ؑسے منسوب کیا گیا ہے جوکہ یہود کی تحریف اور اضافہ معلوم ہوتا ہے ۔ نیز مسلمان متکلمین نے قطعی دلائل کے ساتھ اس تحریف کو ثابت کیا ہے ۔
( الرأی الصحیح فی من ھوالذبیح : حمیدالدین الفراھی)
اردو دائرۃ المعارف میں حج کی بحث میں ہے : انسائیکلو پیڈیا برٹنیکا میں یہ جو لکھا ہے کہ ’’بائبل میں حضرت اسحق علیہ السلام کی قربانی کا باب نہ اصلی ہے ، نہ قدیم ‘‘ بالکل درست معلوم ہوتا ہے ۔
تورات کے مرتبین نے یا تو تعصب کی بناء پر یا دانستہ طورپر غلط بیانی سے کام لیا ہے ۔ تکوین کے الفاظ ہیں : ’’ان باتوں کے بعد خدا نے ابراھیم کو آزمانا چاہا اور کہا : ’’تیرے بیٹے ، اکلوتے اسحق کو جس سے تو محبت کرتا ہے ، لے اور موریہ کے ملک کو جا اور اسے وہاں ایک پہاڑ پر جو میں تجھے بتاؤں گا ، قربان کر ‘‘ ۔ جبکہ قرآن مجید کے مطابق اﷲ تعالیٰ نے حضرت ابراھیم علیہ السلام کی اپنے فرزند کو ذبح کرنے کی سخت آزمائش میں کامیابی پر بطور انعام ایک فرزند حضرت اسحق علیہ السلام کی ودلات کی بشارت دی ۔ چنانچہ تورات کی داخلی شہادتیں بھی قرآن مجید اور اسلامی روایات کی تائید کرتی ہیں ۔ مذکورالصدر اقتباس میں بھی اکلوتے فرزند کا ذکر ہے اور حضرت اسحق پہلے فرزند نہیں بلکہ دوسرے ہیں اور حضرت اسحق علیہ السلام کسی بھی وقت اکلوتے بیٹے نہیں رہے ۔ نیز بائبل کے مطابق قربانی کے لئے اکلوتا بیٹا پیش کیا جاتا ہے۔ اور اکلوتا بیٹا حضرت اسمٰعیل علیہ السلام ہے ۔ کتاب تکوین کی تصریحات ملاحظہ ہوں: ’’اور جب ابرام ( ابراھیم ) کے لئے ہاجر سے اسمعٰیل پیدا ہوا ، تب ابراہیم چھیاسی برس کا تھا ‘‘( تکوین :۶۱،۶۱) ’’اور جب اس کا بیٹا اسحق پیدا ہوا تو ابراھیم سو برس کا تھا ‘‘(دیکھیئے کتاب تکوین:۷۱، ۴۲، ۵۲، ۱۲:۴، ۵)ان سب حوالہ جات سے ثابت ہے کہ حضرت اسمعٰیل ، حضرت اسحق سے تیرہ چودہ برس بڑے تھے اور اکلوتے فرزند حضرت اسمعٰیل علیہ السلام ہی تھے اور یہی مفہوم و مقصود قرآن مجید اور اسلامی روایات کا ہے ۔
اسلام میں قربانی کامفہوم و منشا خود اس کے لفظ سے واضح ہے کہ قربانی کے معنی رضائے الٰہی کو پانا اور اس کے قرب خاص میں شامل ہونا ہے اور یہ قرب خاص خواہشات نفسانی کی قربانی اور تسلیم و رضا کے پیکر بننے سے حاصل ہوتی ہے اور حقیقی قربانی اپنے نفس کی قربانی ہے اور نفسانیت ہی اﷲ تعالیٰ کے قرب میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔ بڑے سے بڑے جانور کو قابو پاکر اسکو ذبح کرنا آسان ہے لیکن نفس پر قابو پانا اور اس کی خواہشات کو اﷲ تعالیٰ کی راہ میں قربان کرنا بہت مشکل کام ہے ۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’’قربانی کے جانور کا گوشت اور اس کا خون اﷲ تعالیٰ کو نہیں پہنچتا ۔ حقیقت میں اﷲ تعالیٰ کو تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے ‘‘۔ (سورۃ الحج : ۲۲)
قربانی سے مقصود دل میں تقویٰ کی کیفیت پیدا کرنا ہے اور یہی تقویٰ کی کیفیت مسلمان کو اﷲ تعالیٰ کے گناہ ، نافرمانی اور خواہشات نفسانی سے دور رکھتی ہے اور اس کے دل میں خدا کی محبت اور اس کے قریب کرنے والے اعمال کی محبت کا بیج بوتی ہے اور مسلمان اسی کیفیت سے اﷲ تعالیٰ کا فرمانبردار ، نیکوکار بندہ بن جاتا ہے ۔ قربانی کی عید کے موقع پر واجب قربانی دینے کے ساتھ مقصد قربانی کو حاصل کرنے کی کوشش کریں۔
واضح رہے کہ عید کے دن اﷲ تعالیٰ کے نزدیک سب سے محبوب عمل جانور کا خون بہانا ہے اور قربانی کے جانور کا قطرۂ خون زمین پر گرنے سے پہلے صاحب قربانی کی مغفرت ہوجاتی ہے ۔ نیز مسلمان قربانی کا گوشت اپنے عزیز و اقارب ، دوست و احباب ، فقراء و مساکین میں تقسیم کرکے حضرت ابراھیم علیہ السلام کی ضیافت و مہمان نوازی کی سنت پر عمل پیرا ہوتا ہے۔ یہ حسن سلوک اور صلہ رحمی کا ذریعہ ہے ، جس سے آپس میں پیار ومحبت میں اضافہ ہوتا ہے۔ تعلقات استوار ہوتے ہیں ، رنجشیں دور ہوتی ہیں ، ایک دوسرے کے قریب ہوتے ہیں اور یہ شریعت میں مطلوب ہے ۔ نبی اکرم ﷺ کے ارشاد کے مطابق جو آدمی اپنی عمر و اقبال، صحت و تندرستی ، رزق میں وسعت و کشائش کا خواہاں ہو وہ اپنے عزیز و اقارب سے حسن سلوک کرے ۔
آج مسلم معاشرہ میں ہر طرف نفرت و دشمنی ، بغض و عناد ، عداوت و زیادتی کا لاوا پھوٹ رہا ہے ۔ کوئی مفاہمت کے لئے آمادہ نہیں ہے ۔ غیرمسلمین کا یہ تاثر ہے کہ مصالحت مسلمانوں کی سرشت میں نہیں جبکہ قرآن نے اعلان کیا ہے … وَالصُّلْحُ خَيْـرٌ ( سورۃ النساء : ۱۲۸) مصالحت بہترین چیز ہے ۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے یقینا تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔ پس تم دو بھائیوں میں اصلاح کی کوشش کرو، اﷲ تعالیٰ سے ڈرو ۔ یقیناً تم کامیاب ہوجاؤ گے ۔ ( سورۃ الحجرات :۱۰)
بقرعید کے موقعہ پر جانور کو ذبح کرنے کے ساتھ ہم اپنی ’’انا‘‘ کو قربان کرنے کا عہد واثق کریں۔ دوسرے مسلمان کا اکرام کرنے اور کسی کی اہانت و توہین سے گریز کرنے ، اپنی دیرینہ دشمنیوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی و خیرخواہی کرنے کا اقرار کریںکیونکہ دین اسلام صرف اور صرف خیرخواہی کا نام ہے اور مسلمان وہ ہے جس کی زبان و ہاتھ سے کسی دوسرے مسلمان کو تکلیف نہ پہنچے ۔ مومن اپنے بھائی پر ظلم نہیں کرتا ، اسے رسوا نہیں کرتا ، اس کے ساتھ زیادتی نہیں کرتا ۔ ایک دوسرے سے دشمنی مت کرو ۔ مخالفت مت پیدا کرو ، ایک دوسرے سے بغض و حسد نہ کرو بلکہ اﷲ تعالیٰ کے بندے اور بھائی بھائی بن جاؤ کیونکہ ساری دنیا کے مسلمان ایک جسم کی طرح ہیں۔ ایک مضبوط عمارت کے مانند ہیںاور کسی کو دوسرے پر کوئی فضیلت نہیں ہے ۔ سوائے تقویٰ و پرہیزگاری کے پس قربانی کی عید کے موقع پر جب ہم جانور کی قربانی کے ساتھ خواہشات نفسانی اور باہمی نفرت و عداوت کی قربانی کریں گے تو اسی میں دین و دنیا کی کامیابی اور دین اسلام کی سربلندی اور ملت اسلامیہ کی ترقی ہے ۔