قیاس کی حجیت احادیث سے بھی ثابت

   

تفریق و اختلاف کا نقیض اور ضد اجماع ہے۔ تفریق و اختلاف سے احتراز کے معنی یہ ہیں کہ اجماع و اتحاد اختیار کیا جائے۔ چنانچہ ارشاد ربانی ہے کہ ’’وہ اپنے معاملات آپس کے مشورہ سے چلاتے ہیں‘‘ (سورۃ الشوریٰ۔۳۸) اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی متعدد حدیثوں سے بھی اجماع کی صحت صواب کا ثبوت ملتا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا ’’جس بات کو مسلمان مستحسن سمجھیں وہ مستحسن ہے‘‘ (مسند احمد) فرمایا ’’میری امت گمراہی پر مجتمع نہیں ہوگی‘‘ (ترمذی) فرمایا ’’تم پر جماعت اور عامۃ المسلمین کی روش لازم ہے‘‘ (مسند احمد) فرمایا ’’اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہوتا ہے‘‘ (ترمذی) فرمایا ’’جو جماعت سے الگ ہوا وہ دوزخ میں جاگرا‘‘۔ (ابن ماجہ)
صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کے تعامل میں بھی اجماع کی بیسیوں نظیریں موجود ہیں، جو اجماع کی حجیت کو ثابت کرتی ہیں۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اس اُمت نے سب سے پہلا کام جو صحابہ کرام نے کیا وہ اجماع سے ہوا، یعنی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت پر اجماع۔
شراب نوشی کی سزا ۸۰ کوڑے، اجماع صحابہ سے طے ہوئی اور ایک غیر متبدل قانون بن گئی۔کاریگر کو اجماع صحابہ ہی سے، دی ہوئی چیز کا ذمہ دار قرار دیا گیا کہ اگر وہ تلف ہو جائے تو اسے قیمت ادا کرنی ہوگی۔
زکوۃ کی ادائیگی سے انکار کرنے والوں سے جہاد، اجماع صحابہ سے ثابت ہے۔
مفقود علاقہ کی زمین اجماع ہی اوقاف میں شامل کی گئی۔
یہ اور اسی طرح کے صحابہ کرام کے فیصلے ایک مسلمہ حقیقت اور مستقل قانون بن گئے۔
شریعت اسلامی کا چوتھا ماخذ ’’قیاس‘‘ ہے۔ قیاس کے لغوی معنی اندازہ کرنے اور رائے قائم کرنے کے ہیں، لیکن اصطلاح میں فرع کو اصل کے ساتھ علت اور حکم میں مساوی کرنے کے ہیں، یعنی جب کسی مسئلہ کی وضاحت قرآن و حدیث سے نہ ہو اور نہ ہی اس پر اجماع موجود ہو تو ایسی صورت میں قرآن و حدیث اور اجماع میں بالترتیب زیر بحث مسئلہ سے ملتا جلتا کوئی ایسا مسئلہ تلاش کیا جائے گا اور پھر اس پر قیاس کرکے زیر بحث مسئلہ کا حکم بھی وہی قرار دیا جائے گا، جو اس مسئلہ کا ہے۔ قیاس کے لئے شرط یہی ہے کہ جس مسئلہ کے بارے میں شریعت کا حکم معلوم کرنا ہے، وہ قرآن و حدیث اور اجماع میں نہ ہو۔ اگر وہ مسئلہ ان تینوں میں یا کسی ایک میں بھی ہو تو پھر قیاس درست نہیں۔
قیاس کے لئے تین چیزیں ضروری ہیں: (۱) ’’مقیس‘‘ یعنی وہ مسئلہ جس کا حکم معلوم کرنا ہو اور جس کو کسی دوسرے پر قیاس کیا جا رہا ہو، یہ فرع بھی کہلاتا ہے (۲) ’’مقیس علیہ‘‘ یعنی وہ مسئلہ جس پر فرع کو قیاس کیا جا رہا ہو، اس کو اصل بھی کہتے ہیں (۳) ’’علت‘‘ وہ وجہ اور سبب جو اصل اور فرع یعنی مقیس اور مقیس علیہ میں مشترک ہے۔ اس اصول کو خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قیاس سے سمجھئے۔ ایک شخص نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا ’’میرے والد پر حج فرض تھا، لیکن وہ کر نہیں سکے اور انتقال ہو گیا۔ اب میں اپنے والد کی طرف سے حج کروں یا نہ کروں؟‘‘۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اگر تمہارے والد قرض چھوڑکر مرتے تو کیا تم قرض ادا نہ کرتے؟‘‘ (بخاری) اس مسئلہ میں حج ’’مقیس‘‘ اور قرض ’’مقیس علیہ‘‘ اور ادا کی فرضیت ’’علت‘‘ ہے۔ یعنی آپﷺ نے حج کو قرض پر قیاس کرکے جو حکم قرض کا ہے، وہی حج کا قرار دیا۔
’’قیاست کی حجیت‘‘ قرآن، حدیث، اجماع اور عقل چاروںسے ثابت ہے۔ قرآن حکیم میں مختلف موقعوں پر غور و فکر اور تدبیر کا حکم دیا گیا ہے اور ظاہر ہے یہ کام قیاس کے بغیر نہیں ہوسکتے۔ قرآن حکیم کا ارشاد ہے: ’’پس عبرت حاصل کرو اے دیدہ بینا رکھنے والو!‘‘ (سورۃ الحشر۔۲) ظاہر ہے کہ ’’اعتبار‘‘ کا لفظ یہاں قیاس ہی کے لئے بولا گیا ہے۔
قرآن حکیم میں جگہ جگہ حکم کی علت بتائی گئی ہے، جس کا مقصد صرف یہ ہے کہ یہ علت جہاں بھی پائی جائے، اس کا حکم بھی وہی سمجھا جائے، جو اصل مسئلہ کا ہے۔ مثلا: (۱) بخل و اسراف کی علت، ملامت و حسرت بتائی گئی (بنی اسرائیل۔۲۹) (۲) زنا کی علت، فحش اور برائی بتائی گئی (بنی اسرائیل۔۳۲) (۳) مسجد حرام میں مشرک کے داخلے کی پابندی کی علت، شرکت کی نجات بتائی گئی ہے (سورہ توبہ۔۲۸) (۴) اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ’’اور خراب چیز کا قصد بھی نہ کرو کہ اس میں سے خرچ کروگے، حالانکہ تم خود بھی اس کے لینے والے نہیں ہو‘‘ (سورۃ البقرہ۔۲۶۷) اس آیت میں مال خبیث کے دینے کا قیاس اس کے لینے پر کیا گیا ہے۔
قیاس کی حجیت احادیث سے بھی ثابت ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ کو یمن کا والی مقرر فرمایا تو انھیں رخصت کرتے وقت جو گفتگو فرمائی، وہ اس طرح ہے:
پوچھا:۔ وہاں تم فیصلہ کس طرح کروگے؟
عرض کیا:۔ کتاب اللہ کے مطابق۔
پوچھا:۔ اور اگر وہ مسئلہ تم کتاب اللہ میں نہ پاؤگے تو کیا کروگے؟
عرض کیا:۔ پھر سنت کے مطابق فیصلہ کروں گا۔
پوچھا:۔ اگر سنت میں بھی نہ پاؤ تو؟
عرض کیا:۔ پھر اپنی رائے سے قیاس کروں گا۔
فرمایا:۔ شکر ہے خدائے بزرگ و برتر کا، جس نے اپنے رسول کے قاصد کو اس بات کی توفیق عطا فرمائی، جسے وہ پسند کرتا ہے۔ (ترمذی)