دل کے ٹکڑے ہوئے اور جگر لُٹ گیا
ایک گھر بس گیا، ایک گھر لُٹ گیا
بہار میں اسمبلی انتخابات کے نتائج نے ایک طرح سے بھونچال پیدا کردیا ہے ۔ جس طرح سے این ڈی اے اتحاد کو توقعات سے کافی زیادہ کامیابی حاصل ہوئی اور مہا گٹھ بندھن کا عملا صفایا ہوگیا تھا اس کے بعد ریاست کی سیاست میں تبدیلیوں کے اشارے توبہت واضح مل رہے تھے تاہم یہ توقع کسی نے نہیں کی تھی کہ ریاست کے ایک بڑے خاندان میں بھونچال آ جائیگا ۔ یہ خاندان بہار کی سیاست میں بہت زیادہ اہمیت کا حامل کہا جاتا ہے جو سابق چیف منسٹر اور آر جے ڈی سربرہ لالوپرساد یادو کا خاندان ہے ۔ لالو پرساد یادو کے نام سے خوف دلاتے ہوئے مخالفین اپنی سیاست کو چمکاتے ہیں اور یہ سلسلہ گذشتہ دو دہائیوں سے جاری ہے ۔ حالیہ تکمیل شدہ اسمبلی انتخابات میں بھی للو پرساد یادو کا خوف دلاتے ہوئے ہی این ڈی اے نے بہار کے عوام سے ووٹ مانگا تھا ۔ بہار میں نتائج چاہے جو کچھ بھی رہے ہوں یہ بات حقیقت ہے کہ انتخابات پر لالو پرساد یادو کے خاندان کا اثر ضرور دکھائی دیا ہے ۔ تاہم یہ بات کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی کہ انتخابی نتائج کے فوری بعد اس خاندان میں انتشار پیدا ہو جائے گا ۔ آپسی اختلافات انتہاء کو پہونچ جائیں گے اور خاندان کے افراد ایک دوسرے کے خلاف الزامات اورجوابی الزامات کا سلسلہ شروع کردیں گے ۔ ویسے تو ہندوستان میں لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوںخاندانوں میں آپسی اختلافات ضرور ہیں لیکن میڈیا میں جس طرح سے لالو خاندان کے اختلافات کو ہوا دی جا رہی ہے اور انہیں اچھالا جا رہا ہے اور اس خاندان کو بدنام اور رسواء کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں وہ افسوس کی بات ہے ۔ کسی بھی خاندان کے اختلافات اس سارے خاندان اور اس سے تعلق رکھنے والے سبھی افراد کیلئے تکلیف دہ ہوتے ہیں۔ ان میں کون قصور وار ہوتا ہے اور کون معصوم ہوتا ہے اس کا فیصلہ باہر کے لوگ قطعی نہیں کرسکتے اور میڈیا تو قطعی اس میں کسی فیصلے کا مجاز نہیں ہوسکتا ۔ تاہم افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے ملک کا میڈیا اس معاملے میں زیادہ ہی سرگرم دکھائی دے رہا ہے اور وہ بی جے پی کی تائید میں ساری بھڑاس اس خاندان پر نکالنے میں مصروف ہوگیا ہے ۔
سیاسی اختلافات اپنی جگہ ہیں اور ہر کسی کو سیاسی اختلاف رکھنے کا حق ہے ۔ یہی ہندوستان کی جمہوریت کا طرہ امتیاز ہے کہ نظریاتی اور سیاسی اعتبار سے شدید اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کا احترام کیا جاتا رہا ہے ۔ این ڈی اے میں شامل لوک جن شکتی پارٹی کے لیڈر چراغ پاسوان اس معاملے میں ایک اچھی مثال بن کر ابھر رہے ہیں۔ اس خاندان کے اختلافات کے تعلق سے ان سے جب کوئی سوال کیا گیا تو انہوں نے واضح طور پر کہا کہ خاندان کے اختلافات کو ہوا نہیں دی جانی چاہئے ۔ اسی طرح کے اختلافات کی صورتحال سے خود ان کا اپنا خاندان بھی متاثر رہا ہے اور وہ ایسی صورتحال میں ہونے والی تکلیف سے بخوبی واقف ہیں۔ چراغ پاسوان نے کہا کہ وہ لالو یادو کے خاندان کو خود اپنا بھی خاندان سمجھتے ہیں اور خاندان کے داخلی مسائال اور اختلافات میں کسی کو مداخلت کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ ان اختلافات پر بی جے پی کی جانب سے جو رد عمل ظاہر کیا جا رہا ہے وہ افسوسناک ہے ۔ بی جے پی کا کہنا ہے کہ اختلافات اور لالو یادو کی دختر نے جو الزامات عائد کئے ہیں ان سے لالو یادو کی مخالف خواتین ذہنیت آشکار ہوتی ہے ۔ یہ در اصل سیاسی اختلاف کا نتیجہ ہے تاہم ہندوستان کی روایات کے یکسر مغائر کہا جاسکتا ہے ۔ سیاسی اختلافات کو شخصی عناد و دشمنی کا ذریعہ نہیں بنایا جانا چاہئے اور نہ ہی کسی کے شخصی اور خاندانی اختلافات کو سیاسی رنگ دی کر کسی کو نشانہ بنایا جانا چاہئے ۔ یہ روش انتہائی افسوسناک ہی کہی جاسکتی ہے ۔
بے شمار خاندانوں میں ایسی تکلیف دہ صورتحال پیدا ہوتی ہے جہاں ارکان کو ایک دوسرے سے کئی شکایات ہوتی ہیں۔ کئی مواقع پر یہ اختلافات منظر عام پر بھی آجاتے ہیں۔ چونکہ لالو پرساد یادو کا خاندان سیاسی اثر و رسوخ والا خاندان ہے ایسے میں اس کے اختلافات بھی منظر عام پر آئے ہیں اور ضرور عوامی توجہ کا مرکز بھی بنے ہیں۔ تاہم اس میں کسی کو جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام نہیں کرنا چاہئے اور خاص طور پر میڈیا کو اس معاملے میں کسی طرح کی منفی تشہیر یا پروپگنڈہ سے گریز کرنے کی ضرورت ہے ۔ میڈیا کا یہ رویہ ہندوستانی روایات اور خود میڈیا کے اخلاق و اقدار کے مغائر بھی کہا جاسکتا ہے ۔