لاک ڈاون ‘ امداد کہاں ہے ؟

   

کیا جئیں گے محبت کے پیاسے
آپ ہی دے رہے ہیں دلاسے
لاک ڈاون ‘ امداد کہاں ہے ؟
سارا ہندوستان کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاون میںہے ۔ دو ہفتوں سے زائد کا وقت گذر چکا ہے اور ابھی کم از کم مزید ایک ہفتہ باقی ہے جبکہ ابھی سے یہ اشارے بھی ملنے شروع ہوگئے ہیں کہ لاک ڈاون میں مزید دو ہفتوں کی توسیع کی جاسکتی ہے ۔ ملک کی دو ریاستوں اوڈیشہ اور پنجاب نے تو اپنے اپنے طور پر لاک ڈاون میں دو ہفتوں کی توسیع کا اعلان بھی کردیا ہے ۔ اب اگر مرکز سارے ملک میں لاک ڈاون نہ بھی کرے تب بھی ان دو ریاستوں میں ختم اپریل تک لاک ڈاون رہے گا ۔ تلنگانہ میں بھی چیف منسٹر کے چندر شیکھر راو لاک ڈاون میں توسیع کے حامی ہیں۔ کرناٹک نے بھی 30اپریل تک لاک ڈاون میں توسیع کی وکالت کی ہے ۔ اسی طرح ٹاملناڈو کا بھی کہنا ہے کہ صورتحال قابو سے باہر ہوتی جا رہی ہے اور ایسے میں لاک ڈاون ہی واحد راستہ ہے تاکہ صورتحال کو ممکنہ حد تک قابو میں کیا جاسکے ۔ ہم جتنے بھی وزراء یا عہدیداروں کی بات کریں سبھی اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ عوام گھروں میں بند رہیں۔ شدید ضرورت کے بغیر باہر نہ نکلیں اور اگر نکلیں تو سماجی دوریوں کا پورا خیال رکھا جائے ۔ یہ ہدایات اپنی جگہ ٹھیک ہیں اور ان پر عمل کرنا چاہئے لیکن سب سے اہم اور سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ لاک ڈاون میں عوام کو جس امداد کا اعلان کیا گیا تھا وہ کہاں ہے ؟ ۔ ابھی تک یہ امداد کسی کو ملتی نظر نہیں آئی ہے ۔ مرکزی حکومت کی جانب سے قومی سطح پر مختلف طبقات کو راحت دینے کے مقصد سے ایک لاکھ 70 ہزار کروڑ روپئے کے پیاکیج کا اعلان کیا گیا تھا ۔ عوام کے کھاتوں میں رقم جمع کرنے اور اناج سربراہ کرنے کی بات کہی گئی تھی ۔ تلنگانہ میں بھی چیف منسٹر کے چندر شیکھر راو نے سفید راشن کارڈ رکھنے والوں کو 12 کیلو چاول اور 1500 روپئے نقد فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا ۔ تین ہفتوں کا لاک ڈاون دو ہفتے مکمل کرچکا ہے لیکن ابھی تک شائد ہی کہیں یہ امداد اور راشن پہونچ پایا ہے ۔ کچھ علاقوں میں راشن حکومت نے روانہ تو کردیا ہے لیکن یہ راشن شاپس پرنظر نہیں آیا اور اگر راشن شاپس تک پہونچا بھی ہے تو حقیقی کارڈ گیرندوں کی اکثریت ہنوز راشن سے محروم ہے ۔
کورونا وائرس کی صورتحال یقینی طور پر اس بات کی متقاضی ہے کہ لاک ڈاون رکھا جائے ۔ عوام کو گھروں میں محدود رہنے کی ہدایت کی جائے ۔ باہر نکلنے والوں کے درمیان سماجی فاصلے برقرار رکھے جائیں کیونکہ اب تک ساری دنیا میں یہی ایک واحد علاج ہے جو کورونا وائرس کے سلسلہ میں اختیار کیا گیا ہے ۔ سب سے زیادہ متاثرہ ممالک نے اس وائرس سے جس طرح سے نمٹا ہے اور صورتحال میں بتدریج بہتری پیدا کی ہے ان کا تجربہ بھی اس بات کی وکالت کرتا ہے کہ لاک ڈاون کو لاگو کیا جائے ۔ تاہم حکومت کو اس بات کو یقینی بنانے پر بھی خاص توجہ کرنے کی ضرورت ہے کہ جہاں کوئی بھی شہری اس وائرس کی وجہ سے فوت نہ ہونے پائے وہیں کوئی بھوک اور فاقہ کشی سے بھی اپنی زندگی سے ہار نہ بیٹھے ۔ حکومتوں کو یہ احساس ہے کہ لاک ڈاون کی وجہ سے ریاستوں کی اور ملک کی بحیثیت مجموعی معیشت بری طرح سے متاثر ہوئی ہے تو یہ بھی اندازہ یقینی طور پر ہوتا ہے کہ جو لوگ یومیہ اساس پر اجرت حاصل کرکے اپنی زندگیوںکا گذارہ کرتے تھے ان کے حالات کیا کچھ ہوگئے ہونگے ۔ ابتدائی چند ایام تو کسی طرح سے گذار لئے گئے ۔ بعد میںمخیر حضرات اور کچھ رضاکارانہ تنظیموں اور اداروں وٹرسٹس کی جانب سے راحت پہونچائی گئی ۔ تاہم یہ راحت بھی سارے غریبوں تک نہیں پہونچ پائی ہے ۔ ہر کسی نے اپنی سکت اور استطاعت کے مطابق اس کام میں حصہ لیا ہے لیکن تمام متاثرین کی امداد کرنا کسی بھی تنظیم یا ادارہ کیلئے ممکنات میں نہیں رہتا ۔
جتنی توجہ لاک ڈاون پر دی جا رہی ہے اور جتنا غور حالات پر کیا جا رہا ہے اگر اتنی ہی توجہ عوام کو راحت پہونچانے پر دی جائے تو لاک ڈاون پر عمل آوری کو بھی موثر بنایا جاسکتا ہے ۔ اگر اس میں توسیع کی واقعی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے اور اس توسیع کا فیصلہ کیا بھی جاتا ہے تب بھی حکومتوں کو اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ لاک ڈاون کی وجہ سے کوئی شہری یا کوئی خاندان بھوکا نہ رہنے پائے ۔ کسی کو بھی مجبوری کی حالت میں لاک ڈاون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے باہر نکلنے کی ضرورت نہ آن پڑے ۔ اگر صرف اعلانات کئے جاتے ہیں تو راحت پہونچانے میں ناکامی ہوتی ہے یا پھر اس کام میں کسی طرح کا تغافل برتا جا تا ہے تو اس سے عوام کی تکالیف و پریشانیوں میں اضافہ ہی ہوگا اور اس کو روکنا حکومت کی ذمہ داری ہے ۔