لداخ کا تشدد ‘ عوامی برہمی کا نتیجہ

   

شمعِ حرم کی جب سے ملی روشنی مجھے
دکھلا رہی ہے راہ نئی زندگی مجھے
لداخ میں صورتحال انتہائی ابتر ہوگئی ہے ۔ علحدہ ریاست کا مطالبہ کرتے ہوئے نوجوان سڑکوں پر اتر آئے اور انہوں نے پرتشدد احتجاج کیا ۔ کہا گیا ہے کہ احتجاجیوں پر پولیس کی فائرنگ میں چار افراد ہلاک ہوئے ہیں اور صورتحال کشیدہ ہے ۔ اس کے علاوہ انتظامیہ کی جانب سے احتجاج میں شرکت کرنے والے نوجوانوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ بھی شروع کردیا گیا ہے اور تاحال پچاس سے زائد نوجوانوںکو گرفتار کرلیا گیا ہے ۔ لداخ کے کئی ٹاؤنس میں کرفیو بھی نافذ کردیا گیا ہے اور ایجنسیوں کی جانب سے تحقیقات کا بھی آغاز کردیا گیا ہے ۔ ساری صورتحال اس وقت شروع ہوئی جب نوجوانوں نے لداخ کو علیحدہ ریاست کاد رجہ دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے احتجاج شروع کردیا اور یہ احتجاج پرتشدد موڑ اختیار کرگیا ۔ احتجاجیوں نے بی جے پی کے دفتر کو بھی نذر آتش کردیا ۔ لداخ کے جہد کار سونم وانگ چوک کی جانب سے علیحدہ ریاست کا مطالبہ کرتے ہوئے بھوک ہڑتال شروع کی گئی تھی ۔ یہ ہڑتال پندرہ دن سے جاری تھی ۔ ایک دن قبل وانگ چوک نے کہا تھا کہ اب ان کی حالت کمزور ہونے لگی ہے اور صحت متاثر ہو رہی ہے ۔ وانگ چوک کے بیان کے بعد صورتحال قابو سے باہر ہوئی اور نوجوان سڑکوں پر اتر آئے ۔ مرکزی حکومت نے لداخ کو علیحدہ ریاست کا درجہ دینے کے مطالبہ پر کوئی واضح موقف اختیار نہیں کیا تھا ۔ نہ اس سے انکار کیا گیا اور نہ ہی اس مطالبہ سے اتفاق کیا گیا ۔ لداخ کے نوجوان وانگ چوک کی ہڑتال اور پھر حکومت کے غیر واضح موقف پر برہم ہوگئے اور انہوں نے اچانک ہی پرتشدد احتجاج شروع کردیا تھا ۔ حالانکہ یہ احتجاج مقامی سطح پر اور مقامی عوام کے مطالبہ کی بنیاد پر شروع ہوا تھا اور اس کے کوئی بڑے منصوبے اور عزائم نہیں تھی تاہم کچھ گوشوں کی جانب سے اسے نیپال ‘ سری لنکا اور بنگلہ دیش جیسی صورتحال سے جوڑا جانے لگا ہے جہاں عوام کے زبردست احتجاج کے بعد حکومتوں کو اقتدار سے بیدخل ہونا پڑا تھا اور وہاں عبوری حکومتیں قائم ہوئیں۔ لداخ کے احتجاج کو جین ۔ زی احتجاج سے جوڑ کر دیکھنے سے صورتحال کے تعلق سے اندیشے پیدا ہوسکتے ہیں۔
جہاں تک لداخ کے مسئلہ کا سوال ہے تو یہ محض ایک علیحدہ ریاست کی تشکیل کے مطالبہ پر پیدا ہوئی ہے ۔ حکومت کو اس معاملے کا سنجیدگی سے جائزہ لیتے ہوئے کوئی راستہ تلاش کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ مقامی نوجوانوںاور ذمہ داران اور کارکنوں کو اس مسئلہ پر بات چیت کے ذریعہ اعتماد میں لیا جاسکتا ہے ۔ حکومت کی جو بھی منصوبہ بندی ہے اس کو عوام کے اعتماد کے ساتھ آگے بڑھایا جاسکتا ہے ۔ حکومت کو تحمل اور بردباری کے ساتھ کام کرتے ہوئے صورتحال کو بہتر بنانے اور قابو میں کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس کو محض تشدد کی نظر سے دیکھنے کی بجائے عوامی جذبات کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ یقینی طور پر حکومت کو تشدد پر قابو پانے کے اقدامات بھی کرنے ہوتے ہیں لیکن جس قدر تحمل سے کام لیا جائے اتنا ہی صورتحال کو بگڑنے سے بچایا جاسکتا تھا ۔ جہاں احتجاجیوں کی جانب سے برپا کیا گیا تشدد اور آگ زنی قابل مذمت ہے وہیں پولیس کی جانب سے فائرنگ کی بھی مذمت کی جانی چاہئے ۔ طاقت کے استعمال سے عوامی جذبات اور خواہشات کو دبانے کی کوششیں کامیاب نہیں ہوسکتیں ۔ اس کیلئے بات چیت کا راستہ اختیار کیا جانا چاہئے حکومت کو احتجاجیوں کا مطالبہ اگر منظور نہیں بھی ہے تب بھی انہیں بات چیت کے ذریعہ سمجھایا جاسکتا ہے ۔ یہ ہمارے ہی نوجوان ہیں اور انہیں دشمن کی نظر سے نہیں دیکھا جانا چاہئے ۔ اگر ان نوجوانوں کو کسی بات پر گمراہ کیا گیا ہے تو انہیں راہ راست پر لانے کی کوششیں کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے ۔
اب سرکاری ایجنسیوں کی جانب سے لداخ کے جہد کار سونم وانگ چوک کے تعلق سے تحقیقات شروع کردی گئی ہیں ۔ یہ پتہ چلایا جا رہا ہے کہ انہیں آیا بیرونی فنڈنگ تو نہیں مل رہی ہے ۔ وہ ایک اختراعی تخلیق کار سے جہد کار کس طرح سے بن گئے ہیں۔ یہ تحقیقات اپنی جگہ درست ہیں لیکن اس سارے مسئلہ کو صرف اسی نظر سے نہیں دیکھا جانا چاہئے اور نوجوانوں کو اور عوامی نمائندوںکو اعتماد میں لیتے ہوئے انہیں تشدد سے باز رکھنے کی کوششیں کی جانی چاہئیں۔ اس حقیقت کو تسلیم کئے جانے کی ضرورت ہے کہ عوامی خواہشات اور جذبات کو محض طاقت کے بل پر کچلا نہیں جاسکتا اور ایسا کرنے کی کوششیں کامیاب نہیں ہوسکتیں۔