کوئی بھی کام نہ آیا دلِ ناکام کے بعد
بڑھ گئی اور بھی تکلیف جو آرام کے بعد
دنیا کو وقفہ وقفہ سے پیش آنے والے وائرس کے خطرات میں کورونا کا خطرہ سب سے سنگین ثابت ہوتا جا رہا ہے ۔ کورونا کی اب تک آئی دو لہروں نے بے تحاشہ تباہی مچائی ہے ۔ لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں افراد دنیا بھر میں اس وائرس کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے گئے ہیں۔ مزید کروڑوں افراد اس کی وجہ سے مختلف عوارض کا شکار ہوگئے ہیں۔ لاکھوں گھر اجڑ گئے ہیں ۔ انسانی زندگیوں کے بعد معیشت پر سب سے زیادہ اس کے سنگین اور منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ ساری دنیا ایک طرح سے تھم سی گئی ہے اور کروڑوں روزگار دنیا بھر میں متاثر ہوگئے ہیں۔ پہلی لہر نے جہاں تباہی مچائی تھی دوسری لہر اس سے زیادہ تباہی والی رہی ہے ۔ خاص طور پر ہندوستان میں دوسری لہر نے جو تباہی مچائی ہے وہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی ۔ اندیشوں سے زیادہ نقصانات ہوئے ہیں۔ حالانکہ اب کورونا کی دوسری لہر تھم سی گئی ہے اور حالات بتدریج معمول پر آتے جا رہے ہیں لیکن اس دوران کورونا کی ڈیلٹا variant کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے ۔ جو مطالعات اب تک سامنے آئے ہیں ان کے مطابق ڈیلٹا وائرس بہت آسانی اور تیزی سے ایک سے دوسروں میں منتقل ہوجاتا ہے ۔ یہ عام وائرس کی طرح بہت سرعت کے ساتھ دوسروں میں منتقل ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں اثرات بھی بہت زیادہ مضر ہوسکتے ہیں۔ اس وائرس کی سب سے خطرناک صورت یہ ہے کہ اس سے کورونا ٹیکہ لینے اور نہ لینے والے دونوں ہی متاثر ہوسکتے ہیں۔ ٹیکہ لینے والوں میں حالانکہ اس کے اثرات کچھ کم ہوسکتے ہیں اور انہیں دواخانوں میں شریک کرنے کی ضرورت کم پڑسکتی ہے یا اموات بھی کم ہوسکتی ہے لیکن اس کے نتیجہ میں صحت کی پیچیدگیاں ضرور پیدا ہوسکتی ہیں۔کورونا کی جتنی اقسام پہلے آتی رہی ہیں ان میںاور ڈیلٹا میں واضح فرق بھی پایا جاتا ہے ۔ جو لوگ اب تک ٹیکہ لے چکے ہیں ان میں دوسری اقسام کے اثرات بہت کم دیکھے گئے تھے تاہم ڈیلٹا میں ٹیکہ لینے والے افراد بھی متاثر ہوسکتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان میں سنگین صورتحال یا اموات کی شرح کم ہوتی اس کے باوجود متاثر ہونے کے اندیشے ضرور موجود ہیں۔
دنیا کے مختلف ممالک میں ڈیلٹا کے اثرات محسوس ہونے بھی شروع ہوگئے ہیں۔ کچھ ممالک کا یہ کہنا ہے کہ ڈیلٹا سب سے پہلے ہندوستان میں پایا گیا تھا اور اب یہ دنیا کے مختلف ممالک میں پھیلتا جا رہا ہے ۔ ماہرین کا یہ ماننا ہے کہ ڈیلٹا کی جو قسم ہے وہ اب تک کی دوسری تمام اقسام میں سب سے زیادہ تیزی سے اور آسانی سے پھیلنے والی قسم ہے اور اس پر قابو پانے کیلئے جو اقدامات درکار ہیں وہ انتہائی شدید نوعیت کے ہیں۔ ان اقدامات سے حکومتوں کو گریز نہیں کرنا چاہئے اور عوام کی جان و مال کی حفاطت کیلئے موثر اور تیز رفتار اقدامات کی ضرورت ہے ۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ وائرس کی اس قسم سے جوان افراد سے زیادہ معمر افراد کو خطرات درپیش ہوسکتے ہیں۔ ان کو بہت زیادہ احتیاط کرنے کی ضرورت ہے اور انہیں عام وبائی بیماریوں سے بھی بچنے پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے ۔ اگر معمر افراد کو یہ وائرس لاحق ہوجاتا ہے تو انفیکشن بہت زیادہ شدید نوعیت کا ہوسکتا ہے ۔ انہیں دواخانوں میں شریک کرنے کی ضرورت پیش آسکتی ہے اور ان میں شرح اموات بھی نوجوانوں کی بہ نسبت زیادہ ہوسکتی ہے ۔ اس وائرس سے ناک اور حلق کا انفیکشن سب سے پہلے ہوسکتا ہے اور پھر یہ تیزی سے پھیل سکتا ہے ۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ ٹیکہ لے چکے افراد کیلئے اچھی بات یہ ہے کہ ان میں یہ وائرس اثر تو کرتا ہے لیکن زیادہ سنگین عوارض لاحق نہیں ہوتے ۔جو لوگ اب تک ٹیکہ نہیں لئے ہیں ان کے اس وائرس سے زیادہ متاثر ہونے کے اندیشے پائے جاتے ہیں۔
اب تک یہ وائرس کئی ممالک میں نمودار ہونا شروع ہوگیا ہے ۔کہا جا رہا ہے کہ امریکہ ‘ برطانیہ ‘ اسرائیل ‘ آسٹریلیا ‘ جاپان ‘ انڈونیشیا اور بنگلہ دیش کے علاوہ کئی یوروپی اور ایشیائی ممالک میں ڈیلٹا متاثرین کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ ان ممالک میں ایک دوسرے سے اس کے پھیلنے کے اشارے مل رہے ہیں۔ موجودہ حالات میں ہندوستان میں بھی اس سے بچنے اور نمٹنے کیلئے جامع اور موثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔ جب تک قبل از وقت احتیاطی اقدامات نہیں کئے جاتے اس وقت تک اس سے نمٹنے میں کامیابی نیہں مل سکتی ۔ جہاں حکومت کو موثر حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے وہیں عوام کو بھی اس پر حد درجہ احتیاط برتنا ہوگا تاکہ اس کے خطرات کو کم سے کم کیا جاسکے۔
