ماہ صیام ‘ مثبت تبدیلی کا موقع

   

رمضان نے بخشا ہے ہر زمانے کو
اپنی فضیلت اور برکتوں کے خزانے کو
ماہ رمضان المبارک کا آغاز ہوچکا ہے ۔ یہ مبارک مہینہ امت پر سایہ فگن ہوچکا ہے اور اب ہمارے لئے موقع ہے کہ ہم اس کی رحمتوں ‘ برکتوں اورنعمتوں سے خود کو سرفراز کرنے کیلئے تیار ہوجائیں۔ یہ ماہ مبارک ہمیںیہ موقع عنایت کرتا ہے کہ ہم اپنے رب سے اپنے تعلق کو مضبوط اور مستحکم کرنے کی کوشش کریں۔ ہم اپنے گناہوں پر نہ صرف ندامت کا اظہار کریں بلکہ ان سے توبہ کریںا ور اللہ رب العزت کی بارگاہ سے رجوع ہوتے ہوئے اپنے لئے مغفرت طلب کریں۔ اللہ تبارک و تعالی سے اس کا فضل اور کرم طلب کریںا ور خود کو انتہائی مجبور اور بے بس محسوس کرتے ہوئے رب کی بارگاہ میں منت و سماجت کریں۔ ماہ صیام ہمیں نہ صرف بھوک اور پیاس کا احساس کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے بلکہ ہمیں دوسروں کے مصائب اور مشکلات کو بھی سمجھنے کے قابل بھی بناتا ہے ۔ ہمیںاس کی رحمتوں‘ برکتوں اور نعمتوں سے خود کو فیضیاب کرنے کیلئے کمر کس لینے کی ضرورت ہے ۔ آج ہم کو اپنی زندگیوں کا جائزہ لینے اور احتساب کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم کس طرح خود کو اللہ رب العزت کی بارگاہ میں پیش کریں۔ ہمیں یہ پتہ ہے کہ ہم اپنی زندگیوں میں کس طرح سے گناہوں کے دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ہماری زندگی میںجو مسائل اور مشکلات ہیں اور ہم دنیا بھر میں جس ذلت و خواری کا شکارہو رہے ہیںاس کی واحد اور بنیادی وجہ یہی ہے کہ ہم اپنے دین سے اور احکام الہی سے دور ہوچکے ہیں۔ ہم اپنی زندگیوں سے دین کو نکال باہر کرچکے ہیں۔ دین پر عمل آوری ہمارے لئے مشکل ہوگئی ہے ۔ ہم لہو ولعب کا شکار ہوگئے ہیں۔ ہم اغیار کے طرز زندگی کو اختیار کرتے ہوئے اسلام سے دور ہوگئے ہیں ۔ ہم احکام الہی اور سنت نبوی ؐ کی تعمیل سے گریز کرنے لگے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں ہم ذلیل و خوار ہونے لگے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم پر اغیار غالب آنے لگے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دنیا سے مرعوب ہونے لگے ہیں اورا پنی زندگیوں میں وہ کچھ کرنے لگے ہیں جو اغیار چاہتے ہیں۔ ہم نے اپنے معاشرہ کو برائیوں اور لعنتوں کا شکار کیا ہوا ہے اور اس کیلئے کوئی اور نہیں بلکہ ہمارے اپنے اعمال ذمہ دار ہیں اور ہمیںاس کا احساس کرتے ہوئے اپنی زندگیوں میں مثبت تبدیلی لانے کی کوشش کرنی چاہئے ۔
ماہ رمضان میں روزہ ‘ نماز ’ زکواۃ کا اہتمام ہوتا ہے ۔ ہم اس میں خشوع و خضوع پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ روزہ ہمارے لئے جہنم کی آگ سے ڈھال ہے ۔ تاہم یہ اسی وقت ڈھال بن سکتا ہے جب ہم روزہ اور ماہ رمضان کے تقاضوں کی تکمیل کریں۔ روزہ صرف کھانا پینا چھوڑنے کا نام نہیں ہے ۔ ہمیں ہر برائی سے خود کو روکنا ضروری ہے ۔ ہم کو چغلی ‘ حسد ‘ جلن اور عداوتوں سے خود کو دور رکھنا چاہئے ۔ ہمیںناراض رشتہ داروں سے تعلقات کو بحال کرنے کیلئے پہل کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہمیں اپنوں کو منانا چاہئے ۔ ہم اگر جھوٹ بولنا نہیں چھوڑتے تو ہمارے بھوکے اور پیاسے رہنے کی اللہ کو کوئی فکر نہیںہے ۔ اگر ہم چغلی اور عیب جوئی سے اپنے آپ کو نہیں روکتے ہیں تو ہمیں کھانے اور پینے سے رکنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی ہمیں اس سے کوئی فائدہ پہونچنے والا ہے ۔ ہمیں اپنے ذہنوں کو بھی منفی سوچ و فکر سے پاک رکھنے کی ضرورت ہے ۔ جتنا ممکن ہوسکے اللہ کو راضی کرنے کیلئے اپنے آپ کو تیار کرلینے کی ضرورت ہے ۔ ہمیں دوسروں کی بھوک اور پیاس کا احساس کرتے ہوئے اپنے بس میں اگر ہو تو ان کی مدد کرنی چاہئے ۔ رشتہ داروں سے حسن سلوک بھی بہت اہمیت کا حامل ہے ۔ ایسے رشتہ داروں کی مدد کو اولین ترجیح دی جانی چاہئے جو سفید پوشی کے بھرم میں کسی سے سوال نہیں کرسکتے ۔ ہمیں بازاروں کی رونق بننے اور اغیار میں غلط پیام پہونچانے سے گریز کرتے ہوئے ماہ رمضان کے حقیقی پیام کو ساری دنیا تک پہونچانے کیلئے نمونہ عمل پیش کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ ہمیںہر اس غلط کام سے خود کو روکنا ہوگا جس سے اللہ تبارک و تعالی ناراض ہوتا ہو ۔ ہمیں نہ صرف اللہ کی ناراضگی سے ڈرنے کی ضرورت ہے بلکہ اپنے کسی بھی عمل سے بندگان خدا کو بھی ناراض کرنے سے مکنہ حد تک بچنا چاہئے ۔
ہمیںیتیموں و یسیروں کی داد رسی اور غم خواری کیلئے بھی سرگرم ہوجانا چاہئے ۔ دل کھول کر ان کی مدد کرتے ہوئے اپنے لئے آخرت کا سامان کرنے کی ضرورت ہے ۔ جب تک ہم خود اپنے آس پاس کے ماحول اور معاشرہ کو تبدیل کرنے اور بہتر و مثبت تبدیلی لانے کی کوشش نہیں کرینگے دوسروں سے گلہ کرنے کا بھی ہمیں کوئی حق نہیں رہے گا ۔ ہر فرد کو خود سے یہ عہد کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم ماہ رمضان المبارک کے حقیقی پیام کو سمجھیں گے ۔ اسے اپنی زندگیوں کا حصہ بنائیں گے اور دنیا کیلئے ایک مثبت اور بہتر پیام دیں گے ۔ آج دنیا کے جو حالات ہیں وہ اس بات کے متقاضی ہیں کہ اپنے رب سے اپنے تعلق کو مضبوط کرلیں اور اس کا بہترین راستہ یہ ہے کہ ہم بندگان خدا اور مخلوق خدا کی داد رسی کیلئے آگے آئیں۔
ٹرمپ اور زیلنسکی کی لفظی جھڑپ
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور یوکرین کے صدر زیلنسکی کے مابین کل وائیٹ ہاوز کے اوول آفس میں ملاقات ہوئی ۔ یہ امید کی جاتی ہے کہ دو سربراہان مملکت کی ملاقات خوشگوار ماحول میں ہوگی اور وہ مثبت انداز میں تبادلہ خیال کرتے ہوئے نہ صرف باہمی تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کرینگے بلکہ عالمی امور پر بھی نفع بخش بات چیت کرینگے ۔ تاہم کل اوول آفس کی ملاقات میں جس طرح سے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے زیلنسکی پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی اور نائب صدر جے ڈی وانس نے بھی جس طرح زیلنسکی کو نیچا دکھانے کی کوشش کی وہ صدارتی سطح کی ملاقات میںمناسب نہیں کہا جاسکتا ۔ یہ درست ہے کہ زیلنسکی نے بھی فوری طور پر مرعوب ہونے کی بجائے اپنے موقف کو واضح انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے لیکن دونوں ہی صدور کی ملاقات جس ماحول میں ہوئی اور جس طرح سے دونوں نے اپنے اپنے موقف کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے اس کی مثال شائد ہی مشکل سے ملتی ہے ۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اپنی دوسری معیاد میں انتہائی جارحانہ تیور کے ساتھ کام کر رہے ہیں اور یہ بات ساری دنیا محسوس کرنے لگی ہے ۔ ٹرمپ کے جارحانہ تیور اپنی جگہ اور زیلنسکی کا موقف اپنی جگہ تاہم ضرورت اس بات کی تھی کہ دونوں ہی صدور اپنے عہدوں کا خیال رکھتے اور ان کے وقار کو داؤ پر لگائے بغیر پرسکون انداز میں بات چیت کرتے ہوئے حالات کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ۔ اس ملاقات سے دنیا کو جو امیدیں وابستہ تھیں وہ پوری نہیں ہو پائی ہیں اورمایوسی ہوئی ہے ۔ اس صورتحال کو ٹالا جانا چاہئے تھا ۔