ڈاکٹر ساجد عباسی
اللہ تعالیٰ نے انسان کو دو چیزیں عطا فرمائی ہیںجسم اور روح۔ روح کے اندر اخلاقی حس اور عقل و شعور ودیعت کئے گئے ہیں، جبکہ انسان کو ایسا برتر جسم دیا گیا ہے جس سے وہ اعلیٰ اعمال انجام دے سکتا ہے۔ دوسری طرف، حیوانات کو جسم و جان کے ساتھ محض جبلت عطا کی گئی ہے، جس کے تحت وہ مخصوص غذا، طرزِ زندگی اور نسل بڑھانے کے دائرے تک محدود رہتے ہیں۔ لیکن انسان کو دیگر مخلوقات پر فضیلت دیتے ہوئے فکر و عمل کی آزادی دی گئی اور زمین پر بے شمار نعمتوں سے نوازا گیا، جنہیں وہ اپنی مرضی سے استعمال کر سکتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے آدمؑ کو پیدا فرمایا تو فرشتوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر انسان کو زمین پر نعمتوں کے ساتھ اختیار دے دیا گیا تو وہ ان کا غلط استعمال کرے گا، جس سے زمین میں فساد برپا ہوگا اور خونریزی ہوگی۔اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’جو کچھ میں جانتا ہوں، تم نہیں جانتے‘‘۔ اسی حکمت کے تحت اللہ نے انسان کو آزمائشی دور سے گزارنے کا فیصلہ کیا۔
سوال یہ ہے کہ یہ امتحان کیوں؟ اس کا مقصد ان لوگوں کا انتخاب ہے جو اپنی عقل کو صحیح استعمال کرکے اللہ کی نشانیوں اور احسانات کو دیکھ کر، بغیر دیکھے اپنے رب کو پہچانیں، اس کی بندگی کریں اور اپنی خواہشات پر قابو رکھیں۔ وہی لوگ کامیاب ہیں جو خود کو اللہ کے حضور جواب دہ سمجھتے ہیں اور اپنے نفس کو قابو میں رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اسی مقصد کے تحت یہ کائنات تخلیق کی اور انسان کو پیدا فرمایا۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:”اور جس نے اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے کا خوف کیا اور نفس کو بری خواہشات سے روکا، اس کا ٹھکانا جنت ہے‘‘۔(النازعات)
یہ آیت بتاتی ہے کہ حقیقی کامیابی جنت میں داخلہ ہے، چاہے دنیاوی زندگی آزمائشوں اور مصائب سے بھری ہو۔ اس کامیابی کے لیے انسان کو اپنی نفسانی خواہشات پر قابو پانا ہوگا اور اللہ کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنی ہوگی، تاکہ اس کا حیوانی وجود اس کے روحانی و اخلاقی شعور کے تابع رہے۔
اسی ضبطِ نفس کو پیدا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے روزوں کو فرض کیا ہے، اور یہی صفت ”تقویٰ‘‘ کہلاتی ہے۔ دنیا میں کوئی بھی عقل مند ایسی سواری پر نہیں بیٹھتا جس کی لگام اس کے ہاتھ میں نہ ہو۔ جب تک انسان جانوروں پر سوار ہوتا تھا، اس کی لگام اس کے ہاتھ میں ہوا کرتی تھی۔ لیکن جدید دور میں بھی ہر سواری میں بریک لازمی ہوتا ہے، کیونکہ بغیر بریک کے گاڑی تباہی کا شکار ہو جاتی ہے۔سوال یہ ہے کہ انسان، جو لامحدود خواہشات اور بے شمار وسائل رکھتا ہے، اگر ضبطِ نفس کے بغیر رہے تو وہ اپنی زندگی کو حادثات سے کیسے بچا سکتا ہے؟ بدقسمتی سے، آج اکثر لوگ اپنی زندگی کی گاڑی بغیر بریک کے چلا رہے ہیں، جس کے نتیجے میں ظلم و ناانصافی، قتل و غارت، عصمت دری اور بین الاقوامی جنگوں جیسے اخلاقی حادثات پیش آ رہے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے روزوں کے ذریعے انسان میں ضبطِ نفس کی وہ طاقت پیدا کرنا چاہی ہے جو زندگی میں بریک کا کام کرتی ہے۔ جس طرح کوئی بھی سمجھدار شخص بغیر بریک کے گاڑی نہیں چلا سکتا، اسی طرح کوئی بھی انسان ضبطِ نفس کے بغیر کامیاب زندگی نہیں گزار سکتا۔