مولانا سیدشاہ اسحاق محی الدین قادری
حضور سیدنا غوث اعظم رضی اللہ عنہ کی ولادت باسعادت ۲۹؍شعبان المعظم ۴۷۰ھ میں بمقام جیلان میں ہوئی ۔آپ ؓ کے والد ونانا بزرگوار کاانتقال آپ کی کم سنی میں ہی ہوگیا تھا اس لئے آپ کی سرپرستی اورتعلیم وتربیت کااہتمام آپ کی والدہ ماجدہ کے ذمے رہا۔ایام طفولیت میں کبھی بچوں کے ساتھ کھیلنے کے خیال سے باہر نکلتے توآوازآتی’’اے برکت والے!میری طرف آ‘‘۔آپؓ سہم کر والدہ محترمہ کی گود میں جابیٹھتے اورکھیل کاخیال ترک کردیتے۔جوان ہوئے توایک مرتبہ بیل لیکرہل چلانے کے ارادے سے اپنی زمین کی طرف جارہے تھے کہ بیل نے مڑکردیکھا اوربزبان انسان کہا ’’اے عبدالقادر!آپ کواسلئے نہیں پیدا کیاگیا ہے اورنہ اس کاحکم دیا گیا ہے‘‘۔آپ گھبراکر واپس آگئے۔
ختم نبوت کے بعد اولیاء اللہ کاطبقہ ہر زمانہ اور ہر ملک میں مخلوق خدا کی رشدوہدایت کا وہ فرض اداکرتا آیا ہے جوانبیاء علیہم السلام کافرض منصبی تھا اور یہی وجہ ہے کہ اولیاء اللہ ہمیشہ عوام وخواص کے مرکز عقیدت رہے۔اس طبقہ اولیاء میں جو رفع ذکراور قبولیت حضور سیدنا غوث اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی ؓ کو حاصل ہے وہ محتاج بیان نہیں ہے۔ساتویں صدی ہجری سے اب تک کاطویل زمانہ آپ کی وفات پر گزرچکا ہے لیکن آج تک لوگ آپ کی ذات گرامی سے اپنی عقیدت ومحبت کاطرح طرح سے مظاہرہ کیاکرتے ہیں اوراس کو اپنی نجات وسعادت کاباعث سمجھتے ہیں۔اوریہ حقیقت ہے کہ اولیاء اللہ سے محبت رکھنا اللہ تبارک وتعالیٰ سے محبت کرنا ہے لیکن اسی کے ساتھ اس بات پر بھی غور کرنے کی بڑی ضرورت ہے کہ اولیاء اللہ سے محبت رکھنے اوران سے عقیدت مندی کے کیا تقاضے ہیںاورحق تبارک وتعالیٰ نے ان اولیاء کرام کو جو یہ خاص رتبہ عطافرمایا تو اس کی وجہ خاص آخر کیا ہے۔سینکڑوں ہزاروں بندگان خدا میں چندمنتخب افراد کااس درجہ بلند یعنی ولایت پرفائز ہونے کا حقیقی سبب کیا ہے؟اگر گہری نظر سے غور کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آئے گی کہ کمال درجہ اطاعت خدا واطاعت رسول قرب الٰہی کے اس مقام پر پہونچادیتا ہے جوولایت کے نام سے مشہور ومعروف ہے۔
حضرت سیدنا غوث اعظم ؓ عہدطفلی سے اپنی عمر شریف کے نوے برس تک اطیعوااللہ واطیعواالرسول کامجسمہ بنے رہے ۔دین وشریعت کاجوعلم اپنے وطن سے بے وطن ہوکر حاصل کیا تھا اس پر پوری طرح عمل پیرا رہے اورامت مسلمہ میں اس علم کی اشاعت کرتے رہے اوراپنی ساری قوتیں ساری صلاحتیں دین متین کی نشرواشاعت اور حفظ وترقی میں صرف کردیں۔جہل وضلالت وکفروشرک اور بدعت وارتداد کومٹانے میں کوئی کسراٹھا نہیں رکھی۔اوراپنی مجالس وعظ میں بندگان خدا کوخدا کی طرف رجوع کرنے اوراللہ سے ان کاتعلق مستحکم کرنے کی کوشش کرتے رہے۔اپنی سیرت وکردار کاوہ نمونہ آپ نے لوگوں کے سامنے پیش کیا کہ اس کو دیکھکر ان کاایمان تازہ ہوتا تھا اور علم وعمل کی ایک شان اس سے ظاہر ہوتی تھی۔جب تک حضرت اس دنیائے فانی میں بقید حیات رہے آپ کے انوار وبرکات سے مشرق ومغرب معمور رہے۔بے شمارکفار ومشرکین اور یہودومجوس آپ کے کلمات طیبات کو سن کر حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔اور جس دن رحلت فرمائی اس دن بھی بے شمار مخلوق قبول اسلام سے مشرف ہوئی۔مورخین کابیان ہے کہ کثرت عبادات وریاضات کااندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ چالیس سال تک عشاء کے وضو سے فجر کی نماز ادا کی،پندرہ سال تک یہ معمول رہا کہ بعدعشاء اکثر کھڑے کھڑے بلکہ صرف ایک پاؤں پرکھڑے ہوکر پوراکلام مجید ختم فرماتے اور ۲۵ سال تک صحراء میں اس تنہائی کے ساتھ بسر کی کہ انسان کی شکل بھی نہیں دیکھی۔
حضور سیدنا غوث اعظم ؓ کی کرامات کی کثرت پر تمام مؤرخین کااتفاق ہے مگر آپ کی سب سے بڑی کرامت جس کی بدولت آپ ؓ دنیائے ولایت کے شہنشاہ مانے گئے۔یہ ہے کہ ایک مرتبہ جلسہ میں اپنے مہمان خانے میں وعظ فرماتے ہوئے آپ پر حالت کشفی طاری ہوئی اور آپ نے فرمایا۔قَدَمِیْ ھٰذِہٖ عَلیٰ رَقَبَۃِ کُلِّ وَلِیِّ اللّٰہ(میرا یہ قدم ہر ولی اللہ کی گردن پر ہے)۔اس مجلس میں عراق کے سب اکابر مشائخ موجود تھے سب نے یہ ارشاد گرامی سن کر اپنی گردنیں خم کردیں۔اورتمام کرّہ ارض پرجہاں جہاں کوئی قطب،ابدال یاولی تھے ہرایک نے آپ ؓ کے یہ الفاظ سن کرگردن جھکادی۔اورعارف کامل شیخ علیؓ بن ابونصرالہیتی جومجلس میں حاضر تھے ،اٹھ کر آپ کے قدم مبارک اپنی گردن میں رکھ لیا۔ان دنوں سلطان الہند حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ خراسان کے پہاڑوں میں مجاہدات وریاضات میں مشغول تھے۔آپ نے بھی روحانی طور پر غوث اعظم ؓ کا ارشاد گرامی سن کر اپنی گردن اس قدر خم کی کہ پیشانی زمین کو چھونے لگ گئی اور عرض کیا :’’قَدَمَاکَ عَلیٰ رأسی وعَیْنِیْ‘‘(آپ کے دونوں قدم میرے سراور آنکھوں پر ہوں)۔حضور سیدنا غوث اعظم ؓ نے اس اظہار نیاز سے متاثر ہوکر فرمایا کہ سیدغیاث الدین کے صاحبزادے نے گردن جھکانے میں سبقت کی ہے جس کے باعث عنقریب ولایت ہند سے سرفراز کئے جائیںگے۔(زبدۃ الآثار:ازشیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ)