ڈاکٹرسید نجی اللہ
دینی مدارس میں دی جانے والی تعلیم کو لیکر نہ صرف ہندوستان میں بلکہ دنیا بھر میں کئی غلط فہمیاں گشت کررہی ہیں۔ ان کو اکثر دہشت گردی سے جوڑنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حالاں کہ یہ بات سب پر عیاں ہے کہ دنیا کو دہلا دینے والے 9/11 کے حملوں میں ملوث لوگ دینی مدرسوں سے نہیں تھے بلکہ عصری تعلیم حاصل کرنے والے تھے۔ قوم کا دانشور طبقہ بھی مدرسوں سے فارغ طلبہ کے مستقبل کو لیکر فکر مند دکھائی دیتا ہے۔چند دن قبل میری ملاقات یونیورسٹی کے ایک طالب علم سے ہوئی جو ایم اے عربی گذشتہ سال کامیاب کیا تھا۔ وہ دستور ہند کا تعارف، میرے پاس پڑھ رہا تھا۔ جب میں نے اسکا حال پوچھا تو بتایا کہ وہ ایک سافٹ ویئر کمپنی میں ترجمہ کے شعبہ میں کام کررہا ہے اور اچھا پیکیج بھی اسے مل رہا ہے۔ مزید بات چیت سے مجھے پتہ چلا کہ اس نے اپنی تمام تعلیم مدرسہ سے کی ہے اور صرف ایم اے یونیورسٹی سے کیا۔ اس نے مجھے بتایا کہ اس کے کئی ساتھی اردو یونیورسٹی سے ایم اے کرنے کے بعد ملٹی نیشنل کمپنیوں میں ملازت کررہے ہیں۔ مجھے بہت خوشی ہوئی نہ صرف اس کے لئے کہ اردو یونیورسٹی کے طلبہ ترقی کے راستہ پر گامزن ہیں بلکہ مجھے یہ بات اوراچھی لگی کہ دینی مدرسوں سے تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ نہ صرف اعلیٰ تعلیمی اداروں سے جڑرہے ہیں بلکہ اس کے ثمرات بھی حاصل کررہے ہیں۔اس سے قبل بھی دارالعلوم دیو بند سے فارغ وسیم احمد نے ملک کا سب سے اعلیٰ سیول سرویس امتحان کامیاب کرکے تاریخ رقم کرچکے ہیں ۔ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے سیول سرویس اکاڈمی میں تربیت حاصل کرنے والے کیرالا کے شاہد ٹی کومتھ نے 2017میں سیول سرویس امتحان میں 693واں رینک حاصل کیا ہے۔ انہو ںنے 12سال مدرسہ میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد دسویں،بارہویں اور ڈگری کے امتحان فاصلاتی تعلیم سے مکمل کیا۔ انکے علاوہ یوپی کے حماد ظفر اور شاہد انصاری ندوی نے بھی سیول سرویس امتحان میں کامیابی حاصل کرکے ثابت کردیا ہے کہ مدرسوں کے فارغ طلبہ کسی سے کم نہیں ہیں۔ مدرسوں سے فارغ کئی حفاظ میڈیسن اور انجینئرنگ کے کورسس بھی کررہے ہیں۔مگر یہ صرف سکہ کا ایک رخ ہے۔ دوسری جانب ہم دیکھتے ہیں کہ مدرسوں کے طلبہ اکثر کسی مسجد کے امام یا کسی دینی مدرسہ کے مدرس ہی بن پاتے ہیں۔ یہ بہت قلیل تنخواہ پر گزارا کرتے ہیں۔ اور کئی ایسے طلبہ ہیں جن کو اس طرح کی ملازت بھی نہیں مل پاتی۔ پھر وہ کوئی چھوٹی موٹی روزی کا ذریعہ ڈھونڈ لیتے ہیںجس کا کوئی تعلق ان کی تعلیم سے نہیں ہوتا۔
مگرسوال یہ ہوتا ہے کہ کیا مدرسہ میں تعلیم حاصل کرنے والے بچے صرف اس مقصد سے داخلہ لیتے ہیں ۔ کیا مذہبی فرائض انجام دینے کے لئے اس بڑی تعداد میں افراد کی ضرورت ہے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ کیا اسلام اس تفریق کی اجازت دیتا ہے کہ دینی تعلیم کچھ لوگ اور عصری تعلیم کچھ اور لوگ حاصل کریں۔ کیا ان بچوں کو دینی تعلیم کے ساتھ عصری اور فنی تعلیم کے لئے تیار کرنے کی ضرورت نہیں ہے؟مدرسوں میں تعلیم حاصل کرنے والے بچے اپنے شوق سے عالم، حافظ اور مفتی بن رہے ہیںتو اچھی بات ہے۔ مگر یہ ان کی مجبوری نہیں ہونی چاہئے۔ انکے پاس ایک اور موقع بھی ہونا چاہئے۔ مدرسوں میں دینی مضامین کے علاوہ انگریزی اور ریاضی کی تعلیم کا بھی اہتمام ہونا چاہئے۔ اوپن اسکول کے ذریعہ دسویں اور بارہویں کے امتحان کے لئے ان کو تیار کرنا چاہئے۔ اس کے لئے حکومت کی طرف سے سروا سکھشا ابھیان کے تحت مدرسوں میں عصری تعلیم کے لئے بنائے گئے اسکیم سے استفافدہ کیا جاسکتا ہے۔
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں دینی مدارس کے طلبہ کو عصری تعلیم سے جوڑنے کے لئے برج کورس شروع کیا گیا ہے۔ اس کورس کو تکمیل کے کرکے پالی ٹیکنک ، بی کام اور بی ایس سی جیسے کورس میں داخلہ لے سکتے ہیں۔ اسکے علاوہ یونیورسٹی نے 200سے زیادہ مدرسوں کے مختلف کورس کو بی اے اور ایم اے میں داخلہ کے اہل قرار دیا ہے۔مدرسہ کے طلبہ دیگر طلبہ کے مقابلے میں زیادہ ذہین ہوتے ہیں۔ جو قرآن کا حفظ کرلیتے ہیں وہ کسی بھی علم کو آسانی سے حاصل کرسکتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کو مواقع فراہم کئے جائیں۔ مدرسہ کے اساتذہ اور منتظمین اپنے طلبہ میں یونیورسٹی اور دیگر اعلیٰ تعلیمی اداروں کے کورس کے متعلق شعور بیدارکریں اور ا ن میں داخلہ کے لئے رہنمائی کریں۔ تعلیمی شعبہ میں کام کرنے والے رضاکارانہ تنظیموں کو چاہئے کہ ان طلبہ کو اوپن اسکول اور اعلیٰ تعلیم اداروں میں داخلہ کے لئے ضروری تربیت اور مالی امداد فراہم کریں۔ خاص کر مدرسہ کے طلبہ کے مستقبل کی فکر کرنے والے مخیر حضرات ان ضرورت مند طلبہ کے تعلیمی اخراجات کو ادا کرکے ان کو اعلیٰ تعلیم اور بہتر روزگار سے جوڑنے میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم کو جوڑنے کی یہ کوشش بڑی حد تک مسلمانوں کی پستی کو روکنے میں معاون ہوسکتی ہے۔