مرکز اور ٹاملناڈو کے مابین لفظی تکرار

   

ابھی دیئے میں ہے تیل باقی ابھی سفر یہ رکا نہیں ہے
اسے کہو تھوڑا بچ کے نکلے چراغ اب تک بجھا نہیں ہے
ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جس میں بے شمار مذاہب کے ماننے والے رہتے اور بستے ہیں۔ یہاں بے شمار زبانیں بولی جاتی ہیں۔ بے شمار تہوار منائے جاتے ہیں۔ کئی مذاہب ہیں جو اپنے اپنے تشخص کو برقرار رکھتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں۔ اسی وجہ سے ہندوستان کو کثرت میں وحدت کا گہوارہ کہا جاتا ہے ۔ کئی مذاہب کے ماننے والے اور کئی زبانوں کے بولنے والے افراد جب قومیت کی بات آتی ہے تو ہندوستانی کہلاتے ہیں۔ ہندوستان کو ساری دنیا میں یہ طرہ امتیاز حاصل ہے کہ یہاں کثرت میں وحدت ہے اور لوگ ایک دوسرے سے ہم آہنگی کے ساتھ رہتے بستے ہیں۔ ملک کے ہر خطے میں الگ الگ زبان بولی جاتی ہے اور الگ الگ کلچر موجود ہیں۔ الگ الگ تہوار منائے جاتے ہیں۔ ہر ایک کو اپنی اپنی زبان پر فخر ہے ۔ حالیہ عرصہ میں دیکھا گیا ہے کہ مرکزی حکومت اور ٹاملناڈو حکومت کے مابین زبان کے مسئلہ پر لفظی تکرار شروع ہوگئی ہے ۔ مرکز کی جانب سے علاقائی زبانوں کی اہمیت کو گھٹانے کا ٹاملناڈو حکومت کی جانب سے الزام عائد کیا جاتا رہا ہے ۔ خاص طور پر جنوبی ہند کے ساتھ مرکز کے امتیازی سلوک کے بھی الزامات عائد کئے جاتے ہیں۔ چاہے نیٹ امتحان کا مسئلہ ہو یا پھر کوئی دوسرا مسئلہ ہو ایک سے زائد مواقع پر ٹاملناڈو اور مرکزی حکومت کے مابین لفظی تکرار دیکھنے میں آئی ہے ۔ ٹاملناڈو کی جانب سے الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ مرکزی حکومت جنوبی ریاستوں پر ہندی کو مسلط کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ ہندی ملک کی سرکاری زبان ہے اور سارے ملک میں اس کا چلن عام ہے ۔ ہندی کی بالادستی اور اہمیت سے انکار ہیں کیا جاسکتا تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جنوبی ہند کی ریاستوں میں ٹامل ‘ ملیالم ‘ کنڑا ‘ تلگو زبانیں بولی جاتی ہیں اور ان کی اپنی بھی مسلمہ حیثیت اور اہمیت ہے اور انہیں ملک میں تسلیم بھی کیا گیا ہے ۔ ایسے میں کسی ایک زبان کو مسلط کرنے اور دوسری زبان کی اہمیت کو گھٹانے کی کوششیں کسی بھی گوشہ سے نہیں کی جانی چاہئیں۔ یہ صورتحال نہ ملک کیلئے اچھی کہی جاسکتی ہے اور نہ ہی ریاستوں کیلئے اچھی ہوسکتی ہے ۔ اس کا خیال سبھی کو رکھنے کی ضرورت ہے ۔
ہر قوم کو اپنی زبان اور کلچر سے بہت زیادہ لگاؤ ہوتا ہے اور ہونا بھی چاہئے ۔ ساتھ ہی ملک کی سرکاری زبان کی اہمیت کو بھی تسلیم کیا جانا چاہئے ۔ دونوں کو اپنے اپنے دائرہ میںر ہتے ہوئے کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم آہنگی کی فضاء متاثرہونے نہ پائے ۔ مرکزی حکومت کی جانب سے زبان و لسانیات کے مسئلہ پر جو کوئی بھی فیصلے کئے جاتے ہیں وہ سارے ملک کیلئے ہوتے ہیں تاہم ایسے فیصلے کرتے ہوئے مرکزی حکومت کو علاقائی زبانوں والی ریاستوں کے ساتھ اشتراک میں کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ ان کی اہمیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور عوام کے جذبات کو پیش نظر رکھتے ہوئے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ملک کی میں علاقائی زبانوں کی اہمیت و افادیت کو بھی برقرار رکھا جاسکے اور شمال و جنوب میں اختلافات کو ہوا نہ دی جاسکے ۔ مرکزی حکومت پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ سارے ملک میں ہر ریاست کے مفادات کا خیال رکھے ۔ ملک میں مروجہ ہر زبان کی اہمیت کو برقرار رکھا جائے ۔ ہر ریاست کے عوام کے جذبات کو پیش نظر رکھا جاسکے اور سبھی کے ساتھ مل کر ہندوستان کو ایک گلدستہ کی شکل میں برقرار رکھا جائے ۔ جس طرح کسی بھی گلدستہ میں کئی طرح کے پھول ہوتے ہیںا سی طرح ہندوستان میں بھی کئی طرح کے کلچر اور زبانیں ہیں ۔ کئی مذاہب ہیں اور کئی طرح کی روایات ہیں جن کو برقرار رکھا جانا چاہئے ۔ کسی ایک زبان کو مسلط کرنے یا کسی ایک زبان کی اہمیت کو گھٹانے یا کم کرنے والے فیصلے کرنے سے گریز کیا جانا چاہئے ۔
ریاستوں کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی علاقائی زبان کو مقدم رکھتے ہوئے سرکاری زبان کی اہمیت کو بھی تسلیم کیا جائے ۔ علاقائی تشخص کی برقراری بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی ہے اور ریاستیں اسی بات پر زور دے رہی ہیں۔ جس طرح جنوب میں مختلف علاقائی زبانیں مروج ہیں اسی طرح شمال مشرق میں بھی الگ الگ زبانیں بولی جاتی ہیں تاہم بحیثیت مجموعی سب ہندوستانی ہیں۔ اسی جذبہ کو برقرار رکھتے ہوئے مرکزی حکومت کو کام کرنے کی ضرورت ہے اور ریاستوں کے ساتھ مشاورت کرتے ہوئے ان کے جذبات کا خیال رکھنے اور ان کی تجاویز کو شامل کرتے ہوئے فیصلے کئے جانے چاہئیں۔