دہلی میں یوم جمہوریہ کے موقع پر تشدد کے لیے مرکزی حکومت کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کئی اپوزیشن قائدین نے کسانوں سے بات چیت کر کے مسئلہ کا حل نکالنے پر زور دیا ۔ کسانوں کی ٹریکٹر ریالی کے دوران پولیس اور سیکوریٹی فورس کی زیادتیوں پر کئی سوال اٹھائے جارہے ہیں کیوں کہ مودی حکومت نے کسانوں کے احتجاج کو ہوا دے کر صورتحال اس حد تک پہونچادی کہ کسان احتجاجیوں کی بھیس میں بعض غیر سماجی عناصر کو لال قلعہ پر چڑھ کر خالصتانی پرچم لہرانے کا موقع دیا ۔ سابق مرکزی وزیر زراعت اور نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے صدر شردپوار نے دہلی میں ہوئے تشدد اور پولیس کے لاٹھی چارج ، آنسو گیاس شل برسانے کے واقعات کو بدبختانہ قرار دیا ۔
اس طرح کے تشدد کی کوئی بھی تائید نہیں کرے گا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس طرح کی حرکتوں کی اجازت کس نے دی اور ایسا ماحول پیدا کرنے کا موقع کس نے فراہم کیا ۔ اگر مودی حکومت نے روز اول ہی زرعی قوانین کو واپس لینے کا اعلان کیا ہوتا تو کسانوں کی بڑی تعداد گذشتہ دو ماہ سے سرحدوں پر جمع نہیں ہوتی ۔ حکومت نے اس مسئلہ پر اپنی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ ہی کیا ہے ۔ اب ٹریکٹر ریالی میں حصہ لینے والے کسانوں کو لاٹھیوں سے پیٹنا اور ان پر آنسو گیاس شل برسانا ، تشدد برپا کروانا یہ سب ایک بڑی غلطی ہے جس کا اعادہ ہونے کی ہرگز اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ مودی حکومت یہی چاہتی ہے کہ کسان تشدد پر اُتر آئیں یا کسان کی شکل میں غیر سماجی عناصر کو احتجاج کا حصہ بنا کر اس پرامن احتجاج کو بدنام کیا جائے ۔ دہلی تشدد کے فوری بعد احتجاجی کسان یونینوں نے اس واقعہ سے خود کو الگ کرلیا ۔ کسانوں نے تشدد کو ناقابل قبول قرار دے کر درست قدم اٹھایا ۔ اب مظاہرین کو اپنے مقاصد کی طرف توجہ دینی ہوگی ۔ عدم تشدد اور گاندھیائی طرز کے ستیہ گرہ ہی سے کسان اپنے مقاصد اور اپنی تحریک میں کامیاب ہوسکتے ہیں ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہندوستان میں اب ایسی حکومت آئی ہے جو اپنی من مانی پالیسیوں کے ذریعہ براہ راست عوام سے متصادم ہونا چاہتی ہے ۔ اس طرح کے واقعات اور تصادم جمہوریت کے لیے قطعی درست نہیں ہیں ۔
دہلی میں کسانوں کا احتجاج اور لال قلعہ پر چڑھ کر پرچم لہرانے کا واقعہ دو مختلف معاملے ہیں ۔ ایک طرف ملک کے عوام مودی حکومت سے مایوس ہیں تو دوسری طرف غیر سماجی عناصر کو لال قلعہ تک پہونچنے کا موقع دے کر پولیس اور نظم و نسق نے کسان تحریک کو رسوا کرنے کی کوشش کی ہے ۔ مودی حکومت نے بہرحال یوم جمہوریہ کے موقع پر یہ ثابت کردیا کہ وہ اب ملک میں سرمایہ دارانہ جمہوریت کو فروغ دے گی ۔ کسانوں اور غریب عوام کی جمہوریت کی تعریف ہی بدل کر رکھدی جائے گی تو پھر اس ملک میں آگے چل کر بہت کچھ ہوسکتا ہے ۔ مودی حکومت کو دہلی کے واقعات کے بعد عوامی جذبات سے آگاہ ہوجانا چاہئے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکومت اپنے مفادات کا تحفظ ڈکٹیٹر شپ کے ذریعہ کرنا چاہتی ہے ۔ ہندوستان میں 1950 سے ہر سال یوم جمہوریہ تقاریب منعقد ہوتی آرہی ہیں اور وقت کے ساتھ یوم جمہوریہ کے مقاصد اور اہمیت کو اجاگر کیا جاتا رہا ہے لیکن اس سال جو تبدیلیاں دیکھی جارہی ہیں وہ افسوسناک ہیں ۔ سرمایہ دارانہ جمہوریت کی خاطر اگر حکومت ہندوستان کی اصل جمہوریت کی روح کو تباہ کرنے کی کوشش کرے گی تو وہ خود ایک دن انہی کارپوریٹ پنجوں کی زد میں آئے گی ۔۔
