کررہا تھا غم جہاں کا حساب
رات تم یاد بے حساب آئے
مسئلہ کشمیر پر ٹرمپ کی مصالحت
مسئلہ کشمیر پر وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی صدر امریکہ ٹرمپ سے ہوئی بات چیت کے بعد ہندوستان اور پاکستان کے عہدیداروں کے جو ردِعمل سامنے آئے ہیں اس سے ایک اور تنازعہ پیدا ہوگیا۔ ابتداء میں صدر ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر پر مصالحت کرنے کی حامی بھری تھی مگر انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ وہ وزیر اعظم نریندر مودی کی خواہش پر اس معاملہ میں مدد کریں گے۔ اس کے فوری بعد حکومت ہند نے تردید کی کہ وزیر اعظم مودی نے ٹرمپ سے اس طرح کی کوئی خواہش کی تھی۔ مسئلہ کشمیر پر دونوں ہند ۔پاک کے درمیان کشیدگی سے صدر ٹرمپ کو واقفیت ہونی چاہیئے۔ لیکن اس طرح کے بیانات صرف اسی صورت میں سامنے آتے ہیں جب کوئی برصغیر کے نمائندوں سے ملاقات کرتا ہے۔ صدر ٹرمپ سے جب وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے درخواست کی کہ وہ مسئلہ کشمیر کے معاملہ میں مداخلت کریں‘ جس پر ٹرمپ نے حامی بھری تھی۔ جہاں تک وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے مداخلت کرنے کی خواہش کا سوال ہے اس پر وزارت خارجہ ہند نے پرزور انداز میں تردید کردی۔ پاکستان کے ساتھ تمام دیرینہ مسائل کی یکسوئی صرف بات چیت کے ذریعہ ہوسکتی ہے اور یہ بات چیت اسی صورت میں ممکن ہے جب سرحد پار کی دہشت گردی کو روکنے میں پاکستان کامیاب ہوجائے۔ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کیلئے عالمی سطح پر ثالثی کے بارے میں اب تک مختلف گروپس اور موقعوں پر بات چیت ہوئی ہے مگر اس کا کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوسکا۔ اس وقت صدر امریکہ ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر کی یکسوئی کیلئے وزیر اعظم نریندر مودی کی خواہش کا حوالہ دیا ہے تو وزیر اعظم مودی کو یہ ہمت دکھانے کی ضرورت ہے کہ آخر ٹرمپ نے ان کے حوالے سے یہ بات کس طرح کہی ہے۔ جیسا کہ وزارت خارجہ نے مودی کی جانب سے ٹرمپ سے کی گئی درخواست کی تردید کی تو فوری وزیراعظم مودی کو ہی اب ٹرمپ سے سوال کرنے کی ضرورت ہے مگر اس کیلئے مودی حکومت کو ہمت دکھانا پڑے گا۔ درپردہ طور پر ہوسکتا ہے کہ وزیر اعظم مودی نے ملک کے مفادات کے ساتھ غداری کی ہو، اور ٹرمپ کے ریمارکس سے واضح ہوتا ہے کہ وزیر اعظم مودی اب قوم کیلئے جوابدہ ہیں۔ مسئلہ کشمیر کے بارے میں جب صدر ٹرمپ نے بیان دیا ہے تو وہ اتنے غائب دماغ تو نہیں ہیں کہ دو ملکوں پاکستان اور ہندوستان کے درمیان پائے جانے والے کئی دہوں پرانے مسئلہ پر یوں ہی بیان دے دیں۔ ایمانداری سے غور کیا جائے تو صدر ٹرمپ مسئلہ کشمیر پر اپنی جانب سے کوئی بات یا من گھڑت جملہ کیوں کر کہہ دیں گے، جب انہوں نے کہا ہے کہ وزیر اعظم مودی نے بھی ان سے خواہش کی ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر پر مصالحت کریں۔ اس موضوع پرجب تنازعہ پیدا ہوا تو امریکہ نے ہاتھ اُٹھالئے اور صاف کہہ دیا کہ کشمیر تنازعہ میں کوئی مصالحت کی پیشکش نہیں کی گئی اور امریکہ نے پاکستان کو صاف کہہ دیا کہ وہ ازخود ہی اس تنازعہ کو حل کرنے میں اپنی ذمہ داری ادا کرے۔ اس بات کا یقین ہے کہ دونوں ممالک ہندوستان اور پاکستان اس تنازعہ کی یکسوئی کے لئے باہمی مذاکرات کو ہی ترجیح دیں۔ مسئلہ کشمیر دونوں ممالک کا باہمی مسئلہ ہے اس میں کسی تیسرے فریق کی ثالثی یا مصالحت کوئی معنی نہیں رکھتی۔ برسوں سے دونوں جانب کے عوام اس ایک مسئلہ کے باعث مسائل اور مشکلات سے دوچار ہورہے ہیں۔ جب سے مرکز میں مودی حکومت نے اقتدار سنبھالا ہے پاکستان کے ساتھ کشیدگی کو ہوا دی گئی ہے۔ وقتاً فوقتاً دونوں جانب رونما ہونے والے واقعات نے کشیدگی میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ اس تنازعہ کو دیگر مسائل سے دوچار کرنے سے گریز کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم پاکستان عمران خان اور وزیر اعظم مودی کو باہمی مسائل کی یکسوئی کے لئے باہمی مذاکرات کو ہی یقینی بنانے کے لئے اقدامات کرنے چاہیئے۔