خزاں نے آگ لگادی ہے گلستانوں میں
چمن میں آج کوئی بے قرار ہوکہ نہ ہو
کرناٹک ہائیکورٹ کے ایک جج نے بنگلورو میں مسلم آبادی والے علاقہ کو پاکستان کہتے ہوئے ایک نیا تنازعہ پیدا کردیا ہے ۔ مالک مکان اور کرایہ دار سے متعلق ایک مقدمہ کی سماعت کے دوران کرناٹک ہائیکورٹ کے ایک جج نے مسلم اکثریتی آبادی والے علاقہ کو پاکستان قرار دیا اور ان کا یہ ریمارک سارے ملک میں تنازعہ کی وجہ بن گیا ہے ۔ اب سپریم کورٹ نے بھی اس ریمارک کا نوٹ لیتے ہوئے کرناٹک ہائیکورٹ سے اس پر رپورٹ طلب کی ہے ۔ کرناٹک ہائیکورٹ کو سپریم کورٹ نے ہدایت دی ہے کہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سے ہدایات لینے کے بعد اس معاملے میں ایک رپورٹ پیش کی جائے ۔ ہندوستان میں سماجی تانے بانے کو متاثر کرنے کی اتنے گوشوں سے کوششیں ہو رہی ہیں کہ اس کا اثر اب ان گوشوں پر بھی ہونے لگا ہے جو اب تک اس کے اثر سے دور رہے تھے ۔ کئی گوشے ایسے ہیں جو مسلمانوں کو پاکستان سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں نے پاکستان کو مسترد کرتے ہوئے ہندوستان کو اپنا وطن مانا ہے ۔ اسی ہندوستان میں ہر طرح کی ناانصافیوں کے باوجود جدوجہد کرتے ہوئے زندگی گذار رہے ہیں۔ فرقہ پرست طاقتوں اور تنظیموں کی جانب سے مسلمانوں کی آبادیوں کو پاکستان قرار دینے کی ایک روایت سی چل پڑی تھی ۔ کئی سیاسی قائدین اپنے سیاسی فائدے کیلئے نفرت پھیلانے کیلئے اس طرح کی اصطلاحات کا استعمال کرتے ہیں۔ ایسے جملے استعمال کرتے ہیں جن سے سماج میں نفرت پیدا ہوتی ہے ۔ دو بڑے طبقات کے مابین دوریاں پیدا ہوتی ہیں۔ ان پر قابو پانے کیلئے کسی بھی گوشے سے کوئی کوشش نہیں کی جاتی ۔ اسی لاپرواہی اور غفلت کی وجہ سے ان کے حوصلے بلند ہوتے گئے ہیں۔ کئی تنظیموں کے ذمہ داران کی جانب سے بھی مسلمانوں کو پاکستان چلے جانے کو کہا جاتا ہے ۔ یہ سارا کچھ ایک منفی سوچ اور بیمار ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے ۔ اس کے باوجود اس روش کو روکنے کیلئے کوئی کوشش نہیں کی گئی جس کے نتیجہ میں اب اس کے اثرات کئی دوسرے شعبہ جات پر بھی مرتب ہوتے دکھائی دے رہے ہیں جو افسوسناک ہے ۔
ملک کی ہر عدالت تمام ہندوستانی شہریوں کیلئے قابل احترام ہے ۔ ہر عدالت سے انصاف رسانی کی جاتی ہے ۔ غریبوں ‘ مظلوموں اور متاثرین کی قانونی مدد کیلئے عدالتیں ہمیشہ سرگرم رہی ہیں۔ عدالتوں پر ملک کے عوام کا اٹوٹ یقین اور کامل اعتماد ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ چاہے کہیں سے انصاف نہ ملے عوام کو عدالتوں میں غیرجانبدارانہ سماعت اور انصاف ملنے کا یقین ہوتا ہے ۔ حالیہ عرصہ میں دیکھا گیا ہے کہ کئی ججس اعلی ترین عہدوں تک پہونچنے کے بعد وظیفہ پاتے ہیں اور پھر وہ سیاسی راستہ اختیار کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے ہیں۔ اس کے نتیجہ میں عدلیہ کے وقار پر سوال اٹھنے کے اندیشے پیدا ہوتے ہیں۔ اب ایک ہائیکورٹ کے جج کی جانب سے کسی شہر کے ایک علاقہ کے تعلق سے اس طرح کا متنازعہ ریمارک کرنا ایسے اندیشوں کو مزید تقویت دیتا ہے ۔ سپریم کورٹ کی جانب سے جو رپورٹ طلب کی گئی ہے وہ ضروری تھی اور اس سارے معاملے پر رپورٹ طلب کرتے ہوئے تمام عدالتوں کیلئے رہنما خطوط جاری کرنے کی بات کہی گئی ہے جو قابل ستائش ہے ۔ ایسے رہنما خطوط کی اجرائی سے عدالتوں اور ججس کیلئے بھی ایک دائرہ مقرر ہو جائے گا اور ایسے ریمارکس کرنے سے گریز ہوسکتا ہے جن پر سوال اٹھائے جا سکیں۔ ملک میں عدالتوں اور عدلیہ کا جو وقار ہے اس کو مجروح کرنے کی کسی کو بھی اجازت نہیں دی جاسکتی اور نہ ہی کوئی عدالتوں یا قانون سے ماوراء ہوسکتا ہے ۔ سبھی کو عدالتوں اور قانون کا احترام کرنا چاہئے اور یہ لازمی بھی ہے ۔
ملک میںفرقہ وارانہ ہم آہنگی کو متاثر کرنے کی جس طرح سے کوششیں ہو رہی ہیں وہ قابل مذمت ہیں۔ اس پراگندہ ماحول میں جج رہتے ہوئے اس طرح کے ریمارک سے گریز کیا جانا چاہئے تھا ۔ عدالتوں میں مقدمات کی سماعت فرقہ یا اکثریت یا اقلیتی کی بنیاد پر نہیں ہوتی بلکہ انصاف کی بنیادوں پر ہوتی ہے ۔ ایسے میں ایک مخصوص طبقہ یا مذہب کی آبادی کو کسی دوسرے ملک سے تشبیہہ دینا درست نہیں سمجھا جا رہا ہے ۔ سپریم کورٹ نے جو اس معاملہ کا نوٹ لیا ہے وہ قابل ستائش ہے اور یہ امید کی جاسکتی ہے کہ اس کیلئے سپریم کورٹ سے واضح رہنما خطوط وضع کئے جائیں گے اور مستقبل میں ایسی صورتحال شائد پیدا نہیں ہوگی ۔