!مسلم دنیا سے اسرائیل کی قربت

   

Ferty9 Clinic

خیال یار میں جب کوئے یار سے گذرا
تو بے خودی میں خودی کی طرف نہیں دیکھا
!مسلم دنیا سے اسرائیل کی قربت
اسرائیل نے صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ کے دور میں مسلم ممالک سے سفارتی تعلقات استوار کرتے ہوئے اپنے سرکاری خزانہ کو مزید طاقتور بنانے کا عمل شروع کیا ہے تو یہ ایک منظم تجارتی و سفارتی کامیابی کہلائے گی ۔ سفارت کاری کو صرف و صرف تجارتی مفادات کو ملحوظ رکھ کر کیا جائے تو اس سے عوام الناس کو کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔ ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات ایک نازک ترین مسئلہ ہے ۔ اس پر سیاہ و سفید کا عنصر ہونے کے باوجود بعض معاملوں میں سچائی پر پردہ ڈالا جاتا ہے ۔ اسرائیل نے اب تک چار مسلم ملکوں سے سفارتی تعلقات قائم کئے ہیں ۔ ایک بڑے مسلم ملک سے بھی تعلقات قائم کرنے کی کوشش جاری ہے ۔ اسرائیل نے وائیٹ ہاوز کی ثالثی میں جاریہ سال مسلم ملکوں کو اپنا دوست بنایا ہے جن میں اہم ممالک متحدہ عرب امارات ، بحرین ، سوڈان اور مراقش شامل ہیں ۔ ایک اور ملک ترکی کے تعلق سے یہ خبر آرہی ہے کہ صدر ترکی رجب طیب اردغان نے اپنی سخت گیر پالیسیوں کے باوجود اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرتے ہیں تو یہ ایک بہت بڑی غیر متوقع تبدیلی ہوگی ۔ مراقش میں اسرائیلی ، امریکی وفد کا دورہ توجہ کا باعث تھا جس کے ذریعہ دونوں ملکوں نے باہمی تعلقات کا جائزہ لیا ہے ۔ اسرائیل جہاں ایک طرف مشرق وسطی کے علاوہ دیگر علاقوں کی مسلم دنیا سے قربت اختیار کررہا ہے وہیں فلسطین کے تعلق سے اس کا جابرانہ اور غاصبانہ رویہ پہلے سے زیادہ سخت ہورہا ہے ۔ فلسطین میں ہونے والی توسیع پسندانہ کارروائیوں پر کئی مسلم ممالک چپ ہیں ۔ جن مسلم ممالک نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرلیے ہیں وہ بھی فلسطین کاز کے تعلق سے اپنے موقف کو ظاہر کرتے ہیں لیکن اسرائیل کے ساتھ دوستی کے بعد ان کا موقف بھی مشکوک ہوجاتا ہے تو اس میں کوئی دورائے نہیں ہونی چاہئے ۔ ایک طرف مسلم ممالک خاص کر خلیجی ملکوں کا بعض مسلم ملکوں کے ساتھ سفارتی تعلق کشیدہ ہورہا ہے تو دوسری طرف یہ مسلم ممالک اسلام دشمن طاقتوں کو گلے لگا رہے ہیں ۔ یہ ایک بھیانک تبدیلی سمجھی جائے یا معاشی و تجارتی مفادات کی دوستی قرار دی جائے ۔ اس کا مسلمانوں کو کوئی فائدہ نہیں ملے گا ۔ اندرونی اور بیرونی خطرات کے پیش نظر جب سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات وغیرہ نے اسرائیل سے اپنے تعلقات بہتر بنانے لگے ہیں تو قطر اور ایران کے ساتھ مخاصمت کو دور کرنے کی کوشش بھی ہونی چاہئے ۔ لیکن بدبختی کی بات یہ ہے کہ مسلم ممالک میں ایسے نا تجربہ کار اور مفاد پرستانہ سوچ کے حامل قائدین آگئے ہیں اس سے مسلم دنیا کا منظر نامہ ہی تبدیل ہورہا ہے ۔ اب جب کہ امریکہ میں ہی بڑے پیمانہ پر تبدیلی آچکی ہے اور امریکی عوام نے ری پبلکن پارٹی کے امیدوار اور موجودہ صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ کو آئندہ میعاد کے لیے مسترد کردیا ہے تو وائیٹ ہاوز کی پالیسی کیا کروٹ لے گی اور اسرائیل کے ساتھ مسلم دنیا کے سفارتی تعلقات میں کس حد تک مضبوطی آئے گی یہ تو آئندہ معلوم ہوگا ۔ امریکہ کے نو منتخب صدر جوبائیڈن کی پالیسیاں ان کے پیشرو صدر ڈونالڈ ٹرمپ سے مطابقت رکھتی ہیں تو پھر اسرائیل اور مسلم دنیا کے تعلقات میں مزید استحکام لانے کی کوشش کی جائے گی اور یہ استحکام صرف اسرائیل کو مزید طاقتور بنانے کا کام کرے گا ۔ اس سے مسلم دنیا کے لوگوں کو کچھ حاصل نہیں ہوسکے گا ۔ لیکن توقع اور امید کی جارہی ہے کہ اسرائیل اپنی پالیسیوں میں مفاد پرستی کو ترجیح نہیں دے گا۔ اگر ایسا ہے تو پھر فلسطین کے تعلق سے اسرائیل کا رویہ تبدیل کرانے کی ذمہ داری اس کے دوست مسلم ممالک پر عائد ہوگی ۔ فلسطین کو پس منظر میں کرنے کی کوشش خود مسلم ملکوں کے مستقبل کے لیے خطرہ ہوگی ۔ اگر مسلم ملکوں نے فلسطینی کاز کو نظر انداز کر کے اسرائیل کو اہمیت دی تو آگے چل کر دنیائے اسلام کا جو حال ہوگا اس پر ابھی سے غور کیا جاسکتا ہے ۔ اسرائیل اور اس کے حامل ملکوں نے دہشت گردی کے حوالے سے اب تک مسلم دنیا کو جس قدر کمزور کردیا ہے کہ اس سے اسلام دشمن طاقتوں کے حوصلے بڑھے ہیں اور وہ آئندہ بھی اسی عنوان سے مسلم دنیا کا شکار کرتے رہیں گے ۔ ایسے میں عالم اسلام کا فرض کیا ہے اور غاصیبوں کے خلاف انہیں کیا قدم اٹھانا چاہئے یہ غور طلب ہے ۔۔