مقامِ حضرت ابوبکر صدیق ؓ

   

ابوزہیر سید زبیرہاشمی نظامی
انبیاء عظام علیہم السلام کے بعد تمام انسانوں میں سب سے افضل شخصیت حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ ہیں، جن کو نبی کریم ﷺ اپنا خلیل یعنی دوست و چہیتا بنانا چاہتے تھے، جن کو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے سچائی کی تائید کرنے والا اور حق و سچ کا پیکر قرار دیا، جنہوںنے زمانۂ جاہلیت میں بھی شراب و جوا اور منکرات سے اجتناب کیا، جن کے بارے میں خلیفۂ عدل حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ: میں ان کے مقام و مرتبہ تک کبھی نہیں پہنچ سکتا۔ خلیفۂ اول وہ جنہیں نبی کریم ﷺنے مسلمانوں کی امامت کی ذمہ داری تفویض کی، جنہیں جنت کے سبھی دروازے سے داخل ہونے کی دعوت دیںگے۔ یہ وہ ہیں جنہوں نے اسلام اور نبی کریمؐ پر اس قدر احسان کئے کہ خود نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا کہ: ’’ان کے احسانات کا بدلہ خود اللہ تعالیٰ چکائیں گے‘‘۔ خلیفۂ اول یہ وہ ہیں جو صرف عشرہ مبشرہ میں ہی شامل نہیں، بلکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ: تم میرے حوضِ کوثر پر بھی رفیق ہوگے، جیسے سفرِ ہجرت میں میرے ساتھ تھے۔
نام و لقب : خلیفہ بلافصل، نبی کریم ﷺ کے جانشین، حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ، آپؓ کا نام عبداللہ بن عثمان بن عمر بن عمر القرشی التیمی تھا اور آپ کی کنیت ابوبکر تھی۔ آپؓ ابوقحافہ کے گھر میں عام الفیل کے دوسال چھ ماہ بعد پیدا ہوئے۔ آپؓ کے لقب صدیق اور عتیق قرار پائے۔ آپؓ نے نبی کریم ﷺکی ہرلمحہ اور ہر گھڑی تائید و نصرت کی۔ نبی کریم ﷺکے اعلانِ نبوت اور سفرِ معراج پر سب سے پہلے تصدیق وگواہی آپؓ نے ہی دی، جس پر نبی کریم ﷺ نے حق و سچ کی تائید کرنے کا لقب (صدیق) عنایت کیا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ، خوبصور ت چہرے والے اور کشادہ پیشانی کے حامل تھے۔
قبولیت اسلام : یہ وہ موقع تھا کہ جب اسلام کی صدائے حق کو قبول کرکے نبی کریم ﷺکا ساتھ دینا، اپنے آپ کو مشکلات میںڈالنے کے مترادف تھا۔ کیونکہ اعلانِ نبوت کے بعدمشرکینِ مکہ، نبی کریم ﷺکے بہت مخالف ہوچکے تھے اور آپؐ کو صفحۂ ہستی سے مٹانے (نعوذباللہ)کے درپے ہوچکے تھے۔ نبی کریم ﷺکے اعلانِ نبوت کے بعد تجارتی سفر سے واپسی پرجونہی حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کو خبر ملی کہ آپ کے قریبی ساتھی و دوست محمدبن عبداللہ نے اعلانِ نبوت کیاہے تو آپؓ فوراً نبی کریم ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اور پوچھے کہ کیا آپ نے اعلانِ نبوت کیا ہے؟ نبی کریم ﷺکی جانب سے اثبات میں جواب ملتے ہی آپؓ بغیر کوئی دلیل مانگے اسلام میں داخل ہوگئے۔
اسی زمانے کامشہورواقعہ ہے کہ نبی کریم ؐخانہ کعبہ میں تشریف لاکرکفارمکہ کو دینِ اسلام کی دعوت دینے لگے تو کفار نے جواباًآپ کی گردن مبارک میں کپڑا ڈال کر تشدد کرنا شروع کردیا، اُسی دوران حضرت ابوبکر صدیق ؓکو معلوم ہوا تو آپؓ آئے اور کفار سے فرمانے لگے: کیا تم ایسے فرد پر ظلم و ستم ڈھارہے ہو، جوتمہیں اللہ کے علاوہ باقی معبودوں کی عبادت کرنے سے منع کرتے ہیں اور صرف ایک اللہ کی عبادت کی طرف بلاتے ہیں؟ یہ کہنا تھا کہ کفارِمکہ نبی کریم ﷺکو چھوڑ کر آپؓ پر حملہ آور ہوگئے۔ کفارنے آپؓ کواتنا مارا کہ آپؓبے ہوش ہوگئے۔ آپؓ کو اس حالت میں گھر لایاگیا۔ جب آپؓ کو ہوش آیا تو سب سے پہلا سوال، نبی کریم ﷺ کی خیریت دریافت کرنے سے متعلق تھا۔ والدہ و اُم جمیل کی جانب سے مطلع کرنے کے کہ آپ بخیر و عافیت ہیں، آپؓ کو تسلی نہ ہوئی تو اسی حالت میں نبی کریم ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے۔ وہاں پہنچ کر نبی کریم ﷺکی جانب سے حوصلہ ملنے پر آپ جیسی اولوالعزم شخصیت نے اپنے دکھ دردو تکلیف کو بھلا کر اسلام اور نبی کریم ﷺسے اپنی بھرپور وابستگی کا اظہارکیا اور درخواست کی کہ دعاکریں، میری والدہ اسلام قبول کرلے۔ نبی کریم ﷺ نے اس مطالبہ پر ہاتھ اُٹھا کر اپنے رب کے حضور دعامانگی، جس کے نتیجہ میں آپؓ کی والدہ محترمہ داخل اسلام ہوئیں۔
شانِ صدیق ؓ بزبانِ قرآن: قرآن مجید میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا تذکرہ سورۂ آل عمران، سورۃ اللیل، سورۃ التوبہ، سورۃ الزمراور سورۃ الفتح میں ہوا ہے، جن میں آپؓ کے مناقب بیان ہوئے ہیں ۔ سیدنا ابوبکرصدیقؓ نے مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور آپؓ کی دعوت پر حضرت عثمانؓ، حضرت ابوعبیدہ ؓ، حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ جیسے جلیل القدر صحابہؓ حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ آپؓ نے قبولِ اسلام کے بعد جان و مال سب کچھ اسلام پر قربان کردیا۔ آپؓ نے اپنے سارے گھرانے کو خدمتِ اسلام اور پیغمبرِ اسلام کے لیے وقف کردیا۔ نبی کریم ﷺکے عقد میں اپنی لختِ جگر اُم المئومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا دی۔ جب بھی نبی کریم ﷺ نے اشاعتِ اسلام کی خاطر مسلمانوں سے صدقہ دینے کی التجا کی تو آپؓ نے سب سے زیادہ مال پیش کیا۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو نیک توفیق عطا فرمائے۔ آمین