سرینگر ۔ 29 جنوری (سیاست ڈاٹ کام) 27 سالہ کبریٰ گیلانی کیلئے، وادی کشمیر کوئی ہنی مون جنت نہیں رہی کیونکہ وہ دونوں ممالک کے درمیان بازآباد کاری پالیسی کی بھینٹ چڑھ گئی۔ پاکستان مقبوضہ کشمیر کے صدر مقام مظفرآباد سے تعلق رکھنے والی مسز گیلانی کی ملاقات الطاف احمد راتھرے سرینگر کے قریب اننت ناگ میں ہوئی جبکہ وہ 1990ء کے اواخر میں کی گئی دوسرے نوجوانوں کی طرح خط قبضہ کو عبور کرکے ہتھیاروں کی تربیت کیلئے سرحد پار گیا تھا۔ دونوں میں محبت ہوگئی اور انہوں نے 25 مارچ 2010ء کو پاکستان مقبوضہ کشمیر میں شادی کرلی۔ مسز گیلانی نے کہا کہ وہ اور اس کا شوہر سابقہ وزیراعلیٰ کشمیر عمرعبداللہ کی بازآباد کاری پالیسی جس کا آغاز 2010ء میں ہوا تھا کشمیر میں آنے کا طئے کیا تھا کیونکہ مسٹر عبداللہ نے وعدہ کیا تھا کہ دونوں کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کے درمیان بنا کسی رکاوٹ کے سفر کرسکتے ہیں لیکن سب سے بڑی رکاوٹ دستاویزات تھے بہت ساری دلہنیں جو اپنے شوہروں کے ساتھ سرحد کے اس پار رہنا چاہتی تھیں ان کے ہاں نہ تو مستقل رہائش کے دستاویز تھے اور نہ ہی کوئی شناختی کارڈ، گذشتہ سال نومبر میں مسز گیلانی طلاق کے بعد سے دونوں سرحدوں کے درمیان پھنس گئی اور نہ تو وہ اپنے ملک جاسکتی تھی اور نہ ہی ہندوستان میں رہائش پذیر ہوسکتی تھی۔ اس نے کہا کہ ان کی ازدواجی زندگی کے آٹھ سال پورے ہوئے اور گذشتہ نومبر میں دونوں کے درمیان طلاق واقع ہوگئی اور وہ اس دوران لاولد ہی رہیں اس کے بعد سے وہ کشمیر میں ہی پھنس گئیں۔ اس کو حکام کی جانب سے آزاد کشمیر سفر کیلئے کلیرنس دیا گیا جس کے باعث وہ طرفہ کرب ایک تو شوہر کی بے وفائی اور دوسرے وطن سے محرومی میں مبتلاء ہے۔ کبریٰ گیلانی اکیلی نہیں ہے بلکہ اس طرح کے 150 دلہنیں کشمیر میں مںجود ہیں جو اپنے سابقہ انتہاء پسند شوہروں کے ساتھ پاکستان مقبوضہ کشمیر سے ہند کشمیر میں داخل ہوئی تھیں لیکن 2010ء میں بازآباد کاری پالیسی کے اختتام پر وہ دونوں ممالک کے درمیان معلق بن کر رہ گئی ہیں۔
مسز گیلانی نے کہا کہ یہاں کے گھٹن کے ماحول سے بدحواس ہوکر تین دلہنیں خودکشی کرلیں۔ مسز گیلانی نے کہا کہ وہ اور دوسری سرحد پار خواتین بہت ہی کسمپرسی کی زندگی گذار رہی ہیں۔ حکومتی رپورٹ کے مطابق 2010-2012ء میں تقریباً 212 افراد پاکستان مقبوضہ کشمیر سے برائے نیپال اور دوسرے راستے کشمیر میں داخل ہوئے اور 219 افراد کو سیکوریٹی کلیرنس دیا گیا اور تقریباً 90 افراد نے سرحد پار سے اپنی فیملیز کو یہاں لائے اس وقت حکومت نے تصدیق کی تھی کہ 1082 نوجوانوں نے جو مقبوضہ کشمیر میں ہتھیاروں کی تربیت کیلئے داخل ہوگئے تھے دوبارہ واپسی کیلئے درخواست دے چکے تھے۔ 1971ء میں جموں و کشمیر ہائیکورٹ نے محسن شاہ کیس میں تبصرہ کیا تھا کہ اس طرح کے جوڑوں کو ملک بدر نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ایک شخص صرف ہندوستان کے ایک مقام سے دوسرے مقام کو سفر کیا ہے۔ مسز گیلانی نے وزیراعظم پاکستان عمران خاں سے اپیل کی ہیکہ وہ ہندوستانی حکومت پر دباؤ ڈالے کہ وہ اور اس کی طرح کی دوسری خواتین جو معلق حالت میں ہیں، ضروری سفری دستاویزات فراہم کرے اور امید کرتی ہیکہ وزیراعظم عمران خاں اس جیسی دوسری خواتین سے انصاف ضرور کریں گے۔ (بشکریہ ’دی ہندو‘)