ظلم کی آگ میں جلنا تو ضروری نہیں
دیکھو، ظلم سے بچنا بھی ایک سلیقہ ہے
ملک کے عوام میں عدلیہ کا احترام بہت زیادہ ہے ۔ عدلیہ نے ہمیشہ اس ملک میں انصاف کو یقینی بنایا ہے اور مظلوموں کی آواز سنی ہے ۔ ظالم کو کیفر کردار تک پہونچانے میں عدلیہ کا رول ہمیشہ مثالی رہا ہے ۔ تاہم حالیہ عرصہ میں دیکھا گیا ہے کہ کچھ ججس قانون اور دستور کے مطابق کام کرنے میں چوک رہے ہیں۔ ملک میں مذہبی مقامات کے تحفظ کا قانون 1991 موجود ہے اس کے باوجود بیشتر شہروں اور ریاستوں میں مساجد کے خلاف دائر کی جانے والی معمولی سی درخواستوں کی بھی سماعت کرتے ہوئے اچانک ہی ایسے احکام جاری کئے جا رہے ہیں جن کی گنجائش بالکل نہیں ہونی چاہئے ۔ اب ایک ہائیکورٹ جج نے مزید آگے بڑھتے ہوئے یہ کہنے سے گریز نہیں کیا کہ ہندوستان ملک میںرہنے والے اکثریتی برادری کے افراد کی خواہشات کے مطابق چلے گا ۔ جج شیکھر کمار یادو نے ایک بنیاد پرست و فرقہ پرست تنظیم وشوا ہند پریشد کے اجلاس میں باضابطہ شرکت کی اور پھر کہا کہ یہ ملک اکثریتی برادری کی خواہشات کے مطابق چلے گا ۔ جبکہ ایسا کہنے کا انہیں کوئی اختیار حاصل نہیں ہے اور نہ ہی وہ اس تعلق سے کوئی فیصلہ کرسکتے ہیں۔ یہ ملک دستور کے مطابق چلے گا ۔ قانون کے مطابق چلے گا ۔ کسی کی خواہش یا مرضی کے مطابق ملک نہیں چل سکتا ۔ کسی برسر خدمت جج کے ذریعہ اس طرح کا ریمارک انتہائی افسوسناک کہا جاسکتا ہے اور جج سے اس ریمارک پر وضاحت طلب کی جانی چاہئے ۔ کچھ جماعتیں جج موصوف کے خلاف پارلیمنٹ میں تحریک مواخذہ پیش کرنے کا بھی ارادہ ظاہر کیا گیا ہے جبکہ سپریم کورٹ نے بھی واضح کردیا ہے کہ اس نے اس ریمارک کا نوٹ لیا ہے ۔ جج کا کہنا تھا کہ انہیں یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے کہ ہندوستان یہاں رہنے والی اکثریتی آبادی کی خواہشات کے مطابق چلے گا ۔ یہی قانون ہے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات کسی ہائیکورٹ جج کی حیثیت سے کہنے کی نہیں یہ بلکہ قانون اکثریت کے مطابق ہی چلتا ہے ۔ جج موصوف نے قانون کی الگ ہی توضیح پیش کرنے کی کوشش کی ہے اور اس کے ذریعہ بھی تنازعات پیدا ہونے کے اندیشے لاحق ہوگئے ہیں۔
یہ بھی کہا جارہا ہے کہ جج موصوف نے ملک کی مسلم برادری کے تعلق سے بھی تضحیک آمیز زبان استعمال کی ہے اور انہیں ملک کیلئے مضر قرار دیا ہے ۔ججس کا جہاں تک سوال ہے تو ویہ انتہائی غیر جانبدار ہوتے ہیں۔ شخصی مذہب یا رائے کو قانون یا دستور پر عمل آوری کی راہ میں رکاوٹ بننے کا موقع نہیں دیا جاتا ۔ سیاسی جماعتوں کی جانب سے اس طرح کے بیان پر شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے اس کی مذمت کی جا رہی ہے اور نیشنل کانفرنس کی جانب سے جج کے خلاف پارلیمنٹ میں تحریک مواخذہ پیش کرنے کی بات کی جا رہی ہے ۔ اپوزیشن جماعتیں چاہے اس پر کسی طرح کا رد عمل ظاہر کریںاور کوئی کارروائی کریں تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اور خود ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ کو بھی اس کا ضرور نوٹ لینا چاہئے ۔ حکومت اور وزارت قانون کو اس معاملے کا تفصیلی اور باریک بینی سے جائزہ لیتے ہوئے قانون کے مطابق کارروائی کرنے کی ضرورت ہے اور اس بات کو واضح کیا جانا چاہئے کہ یہ ملک نہ کسی اکثریت کی رائے سے چلے گا اور نہ ہی کسی اقلیت کی رائے سے چلے گا ۔ اس ملک میں دستور ہے اور قانون ہے ۔ ملک میں کس نظام سے چلانا چاہئے اس کا فیصلہ کرنا کسی ایک فرد واحد کا ذمہ یا کام نہیں ہے بلکہ یہ ملک کی پارلیمنٹ طئے کرتی ہے ۔ ملک کی حکومت طئے کرتی ہے اور اس طرح کے امور میں کسی کو بھی مداخلت کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے ۔ دستور اور قانون میں ہر ایک شعبہ کا دائرہ اختیار بھی واضح کردیا گیا ہے ۔
حکومت کو یہ بھی واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ ملک کے نظام پر کسی طرح کی چوٹ کو برداشت نہ کیا جائے ۔ یہ واضح کردیا جائے کہ ہندوستان جیسا کثیر المذہب ملک کسی ایک مذہب کی رائے سے نہیں چل سکتا ۔ کسی آبادی کی اکثریت یا اقلیت کی بات پر ملک نہیں چل سکتا بلکہ ملک کو صرف دستور کے مطابق چلایا جاسکتا ہے ۔ ملک میں قانون کی بالادستی کو یقینی بنانا چاہئے ۔ دستور میں کسی کو کسی پر فوقیت نہیں دی گئی ہے اور سب کیلئے مساوی حقوق دئے گئے ہیں ۔ ایسے میں کسی منفی سوچ یا رائے کو پھلنے پھولنے کا موقع دئے بغیر ابتداء ہی میں اس پر روک لگائی جانی چاہئے ۔ ایسا کرنا مرکزی حکومت کا فریضہ ہے ۔