کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا
کہیں زمین کہیں آسمان نہیں ملتا
ملک میں مردم شماری کا بالاخر اعلان ہوگیا ہے ۔ مرکزی وزارت داخلہ کی جانب سے آج مردم شماری کے شیڈول کی اجرائی عمل میں لائی گئی ہے ۔ یکم اکٹوبر 2026 سے مردم شماری کا لداخ اور جموںکے علاوہ ہماچل پردیش اور اترکھنڈ میں آغاز ہوگا ۔ اس کے بعد یکم مارچ 2027 سے ملک گیر سطح پر مردم شماری کا عمل شروع کردیا جائے گا ۔ جموں اور لداخ کے علاوہ ہماچل پردیش اور اترکھنڈ میں برفیلی پہاڑیوں کی وجہ سے مردم شماری کا عمل مشکل ہوسکتا ہے اور گنتی کرنے والے عملہ کو مسائل پیش آسکتے ہیںاس لئے یہاں کیلئے علیحدہ شیڈول جاری کیا گیا ہے ۔ جہاں تک ملک بھر کی بات ہے تو یہ عمل یکم مارچ 2027 سے شروع کیا جائیگا ۔ وزارت داخلہ کی جانب سے آج یہ شیڈول جاری کرتے ہوئے تفصیلات سے واقف کروایا گیا ہے ۔ ہندوستان میں طویل وقت سے مردم شماری کا کام جامع انداز میں نہیں کیا گیا تھا اور ایک اندازہ کے مطابق ہی ہندوستان کی آبادی کا تعین کیا جا رہا تھا ۔ تفصیلی طور پر مردم شماری ملک کی صورتحال کو سمجھنے اور مستقبل کے منصوبے تیار کرنے کیلئے بہت زیادہ ضروری ہوتی ہے ۔ اس کو طویل وقت سے معرض التواء میں رکھا گیا تھا تاہم اب حکومت کی جانب سے اس کا شیڈول جاری کردیا گیا ہے ۔ ہندوستان چونکہ ایک وسیع و عریض ملک ہے اور ملک کی آبادی چونکہ ایک اندازہ کے مطابق دیڑھ سو کروڑ نفوس کے قریب پہونچ رہی ہے ایسے میں مردم شماری کا عمل پیچیدہ ‘ طویل اور صبر آزما ہوسکتا ہے ۔ جو عملہ مردم شماری کا کام انجام دے گا اس کی تربیت اور ٹریننگ کی بھی ضرورت ہوگی ۔ جو فارمولا تیار کیا جا رہا ہے وہ بھی پوری احتیاط سے تیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ اعداد و شمار کے درست اندراج کے علاوہ کئی پہلووں کا بھی مردم شماری کے ذریعہ احاطہ ہوسکتا ہے ۔ کس طبہق اور بردری کی کتنی آبادی ہے اور ان کا کتنا تناسب ہے اس کا بھی جائزہ لیا جائیگا ۔ مردم شماری میں اس کا بھی اندراج کرتے ہوئے حقیقی صورتحال سے واقفیت حاصل کی جائے گی ۔ مرکزی حکومت پہلے ہی واضح کرچکی ہے کہ مردم شماری کے ساتھ ذات پات کا ااندراج بھی لازمی طور پر کیا جائے گا ۔
جہاں تک ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری کا سوال ہے تو یہ مسئلہ سب سے پہلے راہول گاندھی نے اٹھایا تھا ۔ انہوں نے کانگریس اقتدار والی ریاستوں کرناٹک اور تلنگانہ میں یہ عمل مکمل بھی کروالیا ہے ۔ اس کے علاوہ بہار میں جب مہا گٹھ بندھن کی حکومت تھی اس وقت وہاں بھی ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری کروائی گئی ۔ اس کے اعدادو شمار کی اجرائی بھی عمل میں لائی گئی تھی ۔ اس کے ذریعہ یہ واضح ہوسکا تھا کہ کس طبقہ کی کتنی آبادی ہے ۔ کس طبقہ کی کتنی حصہ داری ہونی چاہئے ۔ کانگریس پارٹی کی جانب سے یہ نعرہ دیا جا رہا ہے کہ جس کی جتنی آبادی ۔ اس کی اتنی حصہ داری ۔ اسی کی بنیاد پر ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری کی مانگ کی گئی تھی ۔ بی جے پی کی مرکزی حکومت نے اس مطالبہ کو ابتداء میں مسترد کردیا تھا اور کہا تھا کہ اس طرح سے سماج میں تفریق اور تقسیم پیدا ہوگی ۔ تاہم بعد میں صورتحال میں تبدیلی اور عوام کے موڈ کو دیکھتے ہوئے جہاں ملک بھر میں مردم شماری کا اعلان کروایا گیا وہیں ذات پات کے اندراج کو بھی یقینی بنانے سے اتفاق کرلیا گیا ۔ اس طرح بی جے پی حکومت کو اپنے موقف میں تبدیلی لانی پڑی تھی ۔ اب جبکہ اس شیڈول کا اعلان ہو گیا ہے اور مردم شماری کی تیاریاں شروع کردی گئی ہیں تو اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ اس عمل میں کوئی کوتاہی ہونے نہ پائے ۔ مردم شماری کرنے والے عملہ کو جہاں تربیت اور ٹریننگ دی جائے وہیں ان کیلئے بھی ایک طریقہ کار کا تدوین کی جائے تاکہ صحیح صحیح اندراج کو یقینی بنایا جاسکے ۔
بہار میں یہ ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری کی جاچکی ہے ۔ تلنگانہ اور کرناٹک میں بھی یہ کام کیا جاچکا ہے ۔ ایسے میں ان ریاستوں کے تجربہ کو بھی مرکزی حکومت کی جانب سے بروائے کار لا یاجاسکتا ہے ۔ اس تجربہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے ملک بھر میں انجام دئے جانے والی عمل کو نقائص سے پاک بنانے کی حکمت عملی تیار کی جاسکتی ہے ۔ اس معاملے میں کوئی بھید بھاؤ یا امتیاز پر مبنی سلوک نہیں کیا جانا چاہئے ۔ کسی طبقہ یا فرقہ کی آبادی کے اندراج میں کوئی پس و پیش نہیں ہونا چاہئے اور حقیقی بنیادی ڈاٹا تیار کرنے پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے قومی سطح پر مردم شماری کی جانی چاہئے ۔ اس سے مستقبل کی پالیسیوں کی تیاری میں مدد مل سکتی ہے ۔