منشیات ‘ نوجوان اور سلیبریٹیز

   

نشہ پلا کے گرانا تو سب کو آتا ہے
مزہ تو جب ہے کہ گرتے کو تھام لے ساقی
بدلتے وقتوں کے ساتھ سماج میں مختلف لعنتیں بھی سرائیت کر گئی ہیں ۔ کوئی وقت تھا جب شراب نوشی یا سگریٹ نوشی کو بھی عیب سمجھا جاتا تھا اور اس سے حتی المقدور بچنے کی کوشش کی جاتی تھی ۔ تاہم پیسے کی ریل پیل اور مغربی تہذیب کی پیروی میں ہندوستانی سماج بھی منشیات جیسی لعنت کا شکار ہوچکا ہے اور نوجوان طبقہ خاص طور پر اس سے متاثر ہونے لگا ہے ۔ ملک میں کچھ مقامات ایسے ہیں جو منشیات کا مرکز سمجھے جاتے ہیں۔ اس لعنت کو ایک فلم ’’ اڑتا پنجاب ‘‘ میں بھی پیش کرتے ہوئے شعور بیدار کرنے کی کوشش کی گئی تھی ۔ تاہم یہ محض ایک کوشش تھی اور اس کے بعد مزید کوئی اقدامات نہیں کئے گئے ۔ حکومتیں اپنے طور پر قانون سازی کرتے ہوئے اور منشیات کی خرید و فروخت اور استعمال کو روکنے کیلئے اقدامات بھی کرتی ہیں لیکن ان کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہو رہا ہے ۔ شراب نوشی اور منشیات کا استعمال جتنا زیادہ عام ہوتا جا رہا ہے اس کے انسانی زندگیوں پر انتہائی منفی اثرات بھی مرتب ہونے لگے ہیں۔ کئی زندگیاں اور خاندان متاثر ہو ر ہے ہیں ۔ اس کے باوجود یہ لعنت ختم نہیں ہو پا رہی ہے اور اس کا حلقہ اثر بڑھتا ہی جا رہا ہے ۔ جس وقت سے ملک میں پب کلچر کو فروخت حاصل ہوا ہے اس وقت سے ہی منشیات کے استعمال میں بھی اضافہ ہوگیا ہے ۔ شراب نوشی نوجوانوںمیں عام ہو گئی ہے ۔ خاص طور پر ملٹی نیشنل کمپنیوں میں ملازم افراد اور اعلی تعلیم یافتہ افراد بھی اس کا شکار ہونے لگے ہیں۔ ہندوستان میں ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ اس لعنت کا شکار فلمی شخصیتیں بھی ہوگئی ہیں اور ان کی وجہ سے اس کلچر کو فروغ بھی مل رہا ہے ۔ چاہے وہ بالی ووڈ ہو یا پھر ٹالی ووڈ ہو ‘ ٹامل فلمی صنعت ہو یا پھر ملیالم فلمی حلقے ہوں سبھی حلقوں میں اس لعنت نے اپنا اثر دکھایا ہے اور اس کے نتیجہ میں جو نقصان ہوا ہے وہ ناقابل تلافی ہی کہا جاسکتا ہے ۔ کئی مثالیں ایسی بھی ہیں جہاں منشیات کے استعمال کی وجہ سے ابھرتے ہوئے اداروں اور اداکاراؤں کا کیرئیر تباہ ہوگیا اور ان کی زندگی اپنے عروج پر پہونچنے سے قبل ہی اختتام کی سمت چلی گئی ۔ آج وہ سب گوشہ گمنامی میں چلے گئے ہیں اور کسمپرسی کی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔
وقفہ وقفہ سے کئی شہروں اور خاص طور پر جنوبی ہند کی ریاستوں میں منشیات اور شراب و شباب کی محفلوں Rave Parties کی اطلاعات بھی سامنے آتی ہیں۔ پولیس ان پر دھاوے بھی کرتی ہے ۔ کئی معروف شخصیتیں اور فلمی صنعت سے تعلق رکھنے والے افراد بھی گرفتار کئے جاتے ہیں۔ چند دن کا تذکرہ ہوتا ہے اور پھر بات ختم ہوجاتی ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ چند دن کی چوکسی اور کارروائیوں کے بعد نفاذ قانون کی ایجنسیاں بھی خاموش ہوجاتی ہیں اور اس طرح کی بیہودہ پارٹیوں اور منشیات کے استعمال کا چلن دوبارہ بحال ہوجاتا ہے ۔ فلمی دنیا کی چکاچوند میں انسان اپنے ہواس کھو بیٹھتا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جس طرح سے طلبا برادری میں اس تعلق سے شعور بیدار کرنے کی مہم چلائی جاتی ہے اسی طرح فلمی شخصیتوں میں بھی اس طرح کی مہم چلانے کی ضرورت ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ فلمی دنیا ہو یا پھر پب کلچر سے تعلق رکھنے والے حلقے ہوں صد فیصد منشیات کی لعنت کا شکار نہیں ہیں لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہی ہے کہ ان سے تعلق رکھنے والے افراد اس طرح کی محفلوں کے دلدادہ ہوتے ہیں۔ جہاں تک نوجوان نسل کو اس لعنت سے دور رکھنے کی بات ہے تو یہ سب سے اہم ہے کیونکہ یہی نوجوان آگے چل کر قوم اور ملک کا مستقبل ہوسکتے ہیں۔ اگر انہیں اس طرح کی لعنت سے نہیں بچایا گیا تو پھر مستقبل تابناک ہونے کی بجائے تاریک ہوسکتا ہے ۔ اس صورتحال کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہی سب کو اس لعنت کو ختم کرنے کیلئے آگے آنا چاہئے ۔
جہاں حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ قانون سازی کرے ‘ نفاذ قانون کی ایجنسیوں کو چوکس رکھے ‘ انہیں جوابدہ بنائے وہیں سماجی تنظیموں اور اداروں کا بھی فریضہ ہے کہ وہ اس لعنت کو ختم کرنے کیلئے باضابطہ مہم چلائیں۔ تعلیمی اداروں اور مغربی کلچر سے متاثر حلقوں پر خاص توجہ دی جائے ۔ خود والدین کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی نوجوان نسل کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں۔ انہیں عیش و عشرت اور چکاچوند کا دلدادہ بننے سے روکا جائے ۔ سلیبریٹیز کو بھی اس معاملے میں اپنی ذمہ داری محسوس کرنی چاہئے ۔ وہ لاکھوں لوگوں کیلئے مثال ہوتے ہیں اس لئے انہیں اپنے کردار کو بہتر بناتے ہوئے سماج کی اس لعنت کو ختم کرنے میں اپنا رول ادا کرنا چاہئے ۔