منی پور میں صدر راج

   

جن کے ذہنوں میں بنالیتا ہے شک اپنا مقام
ایک دن خود آپ سے وہ بدگماں ہوجائیں گے
شمال مشرقی ریاست منی پور میں بالآخر صدر راج نافذ کردیا گیا ۔ گذشتہ دنوں چیف منسٹر کی حیثیت سے بیرین سنگھ نے استعفی پیش کردیا تھا ۔ حالانکہ ان کے استعفے کیلئے ایک سال سے زیادہ وقت سے مطالبات کئے جا رہے تھے لیکن بی جے پی اور اس کی اعلی قیادت اس مسئلہ پر ٹس سے مس ہونے تیار نہیں تھی ۔ سیاسی اثرات کا اندازہ کرتے ہوئے بی جے پی نے بالآخر گدشتہ دنوں بیرین سنگھ کو مستعفی ہونے کی ہدایت دی تھی ۔ ان کے استعفے کے بعد کل منی پور کی ریاست میں صدر راج نافذ کردیا گیا ہے ۔ اس طرح سے منی پور میں سیاسی منظرنامہ ٹھپ ہوکر رہ گیا ہے ۔ بیرین سنگھ نے چیف منسٹر کی حیثیت سے استعفی اس وقت دیا تھا جب ان کے خلاف اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پیش کی جانے والی تھی ۔ اس تحریک کی کامیابی کے بھی امکانات پیدا ہوگئے تھے ۔ بی جے پی کو خود داخلی خلفشار کا سامنا تھا کیونکہ ایک درجن سے زیادہ ارکان اسمبلی چیف منسٹر کی حیثیت سے بیرین سنگھ کی تبدیلی کا لگاتار مطالبہ کر رہے تھے ۔ انہوں نے اس مطالبہ پر دہلی پہونچ کر بھی نمائندگیاں کی تھیں اور وزیر داخلہ امیت شاہ سے ملاقات کی تھی ۔ تاہم اب اس طرح کی تمام سرگرمیاں ٹھپ ہوکر رہ گئی ہیں۔ اب ریاست میں گورنر کے ذریعہ کام چلایا جائیگا ۔ تاہم اصل سوال یہ نہیں ہے کہ کس نے استعفی دیا ہے اور اقتدار کس کے ہاتھ آگیا ہے ۔ اصل مسئلہ یہی ہے کہ منی پور میں امن کب بحال ہوگا ۔ کس طرح سے وہاں متحارب قبائل کو بات چیت کی میز پر لاتے ہوئے حالات کو بہتر بنانے کی سمت پیشرفت کی جاسکتی ہے ۔ چونکہ مرکز اور ریاست دونوں ہی مقامات پر بی جے پی کی حکومت تھی اس لئے بی جے پی پر ہی ذمہ داری عائد ہوتی تھی کہ وہ منی پور میں صورتحال کو بہتر بنائے ۔ وہاں امن و سلامتی کو بحال کیا جائے ۔ عوام کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے ۔ اب جبکہ مرکز نے ریاست میں صدر راج نافذ کردیا ہے ایسے میں بھی مرکز کی ذمہ داری ہی ہے کہ وہ منی پور میںامن قائم کرنے کی کوشش کرے ۔ ریاست میں ماحول کو سازگار بنائے اور عام زندگی بحال کرنے کے مقصد سے سنجیدگی سے اقدامات کئے جائیں۔
منی پور کی ریاست گذشتہ تقریبا دو سال سے جل رہی ہے ۔ وہاں بے تحاشہ تشدد دیکھنے میں آیا ہے ۔ سینکڑوں افراد اس تشدد میں اپنی زندگیاں گنوا بیٹھے ہیں۔ بے شمار گھروں کو نذر آتش کردیا گیا ہے ۔ کئی دوکانیں خاکستر کردی گئی ہیں۔ کئی بستیاں اجاڑ دی گئی ہیں۔ کئی علاقے ویران ہو کر رہ گئے ہیں۔ سماج کے کئی طبقات میں ایک دوسرے کے تعلق سے اندیشے اور بے اعتباری عام ہوگئی ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ منی پور کی سیاسی اور علاقائی اہمیت کو دیکھتے ہوئے وہاںحالات کو بہتر بنانے پر خاص توجہ دی جائے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ وزیر اعظم نریند مودی نے تقریبا دو سال کے عرصہ میں بھی منی پور پر کوئی ریمارک یا تبصرہ نہیں کیا ہے ۔ انہوں نے عہدیداروں یا وزراء کے ساتھ کوئی اجلاس منعقد کرکے صورتحال کا جائزہ نہیںلیا ۔ وزیر اعظم نے ان دو برس کے عرصہ میںدنیا کے کئی ممالک کا دورہ کیا لیکن وہ منی پور نہیں گئے ہیں۔ وزیر داخلہ امیت شاہ نے ضرور منی پور کا دورہ کیا ہے۔ صورتحال کا جائزہ لیا ہے اور کچھ اقدامات کا بھی اعلان انہوں نے کیا تھا لیکن یہ اب تک بھی ثمر آور ثابت نہیں ہوئے ہیں۔ گذشتہ دو سال میں ملک بھر میں کئی واقعات پیش آئے ہیں اور کئی تبدیلیاں بھی رونما ہوئی ہیں لیکن منی پور کی صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے ۔ وہاں زندگی اب بھی سسکیاں لینے پر مجبور ہے ۔ کبھی اچانک ہی خطرناک تشدد پھوٹ پڑتا ہے تو کبھی ایک اضطراب آمیز سکون چھا جاتا ہے ۔ یہ صورتحال اچھی نہیں کہی جاسکتی ۔
اب جبکہ ریاست میںسیاست تھم سی گئی ہے ۔ حکومت کا وجود نہیں رہ گیا ہے ۔ گورنر کے ہاتھ میں اقتدار آگیا ہے ایسے میں مرکزی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ دوسری مصروفیات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے منی پور کی صورتحال پر غور کرے ۔ اس صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے موثر اور جامع حکمت عملی بنائی جائے ۔ اس پر عمل کو یقینی بنایا جائے ۔ منی پور کے عوام کے تمام طبقات کو اعتماد میں لینے اقدامات کئے جائیں۔ ان کی تشویش کی سماعت کی جائے اور پھر حالات کو بہتر بنانے کے اقدامات کئے جائیں اور جتنا ممکن ہوسکے جلد صورتحال کو معمول پر لایا جائے تاکہ تشدد سے متاثرہ منی پور کے عوام کو راحت مل سکے ۔