مخصوص سیاستدانوں اور ہندو تنظیموں کے ذمہ داروںکو نفرت انگیز تقاریر کی کھلی چھوٹ۔ اترپردیش جرائم میں آگے
حیدرآباد۔27۔جون(سیاست نیوز) مودی حکومت کی تیسری میعادکے پہلے ایک سال کے دوران مجموعی اعتبار سے 947 نفرت پر مبنی جرائم ریکارڈ کئے گئے ہیں اوران نفرت انگیز جرائم میں جملہ 1460 مسلمان نشانہ بنائے گئے ہیں جو کہ 419 واقعات میں نشانہ بنے ہیں۔ اس کے علاوہ نفرت پر مبنی جرائم جو عیسائی برادری کے خلاف ریکارڈ کئے گئے ہیں ان کی تعدادا85 ہے اور ان حملوں میں 1504 عیسائیوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ 7 جون 2024تا7جون2025کے دوران پیش آئے واقعات کو درج کرتے ہوئے اسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سیول رائٹس کی جانب سے تیار کردہ رپورٹ میں اس بات کا انکشاف کیاگیا ہے کہ مودی حکومت کی تیسری میعادکے دوران پہلے سال میں جو نفرت انگیز جرائم ریکارڈ کئے گئے ہیں وہ انتہائی سنگین ہیں۔ مجموعی اعتبار سے ریکارڈ کئے جانے والے ان 947 جرائم میں 345 نفرت انگیز تقاریر شامل ہیں جو کہ سیاسی قائدین کی جانب سے کی جانے والی تقاریر کے علاوہ مختلف ہندو تنظیموں کے ذمہ داروں کی جانب سے کی جانے والی تقاریر ہیں۔345 نفرت انگیز تقاریر کے علاوہ 602نفرت انگیز واقعات میں 173 ایسے واقعات ہیں جن میں اقلیتوں کو زدوکوب کیاگیا ہے اور ان وقعات میں 25 مسلمان اپنی جان گنوا چکے ہیں۔اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز واقعات میں شمالی ہند کی ریاستیں سرفہرست ہیںجو کہ بی جے پی زیر اقتدار والی ریاستیں ہیں ۔ان میں اترپردیش اب بھی سرفہرست ہے جہاں اقلیتوں کے جان و مال کو نقصان پہنچایا جارہا ہے۔ رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ اترپردیش ‘ مدھیہ پردیش‘ مہاراشٹرا‘ چھتیس گڑھ کے علاوہ دیگر ریاستیں شامل ہیں ۔سال گذشتہ ماہ اکٹوبر کے دوران 80 نفرت پر مبنی واقعات ریکارڈ کئے گئے ہیں جن میں تبدیلی مذہب کے نام پر ہراسانی ‘ نوراتری کے دوران گوشت کی فروخت و منتقلی ‘ کے نام پر کئے جانے والے حملے شامل ہیں۔ ملک کی جن ریاستوں میں اس مدت کے دوران نفرت پر مبنی واقعات پیش آئے ہیں ان میں سب سے زیادہ واقعات اترپردیش میں میں ریکارڈ کئے گئے ہیں جہاں 217 واقعات درج کئے گئے ہیں اس کے بعد ریاست مہاراشٹرا ہے جہاں 101 واقعات کا اندراج کیاگیا ہے تیسرے نمبر پر ریاست مدھیہ پردیش ہے جہاں 100 نفرت پر مبنی واقعات درج کئے گئے ہیں۔اس مدت کے دوران اتر کھنڈ میں 84 اور راجستھا ن میں 60 واقعات درج کئے گئے ہیں ۔APCRکی جانب سے جاری کی گئی اس رپورٹ میں ملک بھر میں پیش آنے والے واقعات کے ریکارڈ کو درج کرتے ہوئے پیش کیاگیا ہے اور اس رپورٹ کی اجرائی کے بعد ملک میں اقلیتوں کی صورتحال کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے ۔3