میں جانتا ہوں تمہارا سوال کیا ہوگا
سحر کے بعد چراغوں کا حال کیا ہوگا
مہاراشٹرا میں سیاسی تبدیلیاں تیزی کے ساتھ رونما ہو رہی ہیں اور یہ یقین سے کہا جانے لگا ہے کہ مہاراشٹرا اور خاص طور پر ممبئی میں ہونے والے میونسپل انتخابات میں ان تبدیلیوں کا اثر دیکھنے کو ملے گا ۔ مہاراشٹرا اسمبلی انتخابات کے جو نتائج تھے وہ کئی حلقوں اور گوشوں کیلئے توقع کے برخلاف تھے ۔ خاص طور پر شیوسینا ادھو ٹھاکرے گروپ کے ان نتائج سے حوصلے پست ہونے لگے تھے ۔ تاہم لگاتار جدوجہد کے ذریعہ حالات کو بدلنے کیلئے ادھو ٹھاکرے نے سیاسی سمجھ بوجھ کے ساتھ کوششوں کا آغاز کیا تھا اور ایسا تاثر مل رہا ہے اس کے ابتدائی نتائج اب دستیاب ہونے لگے ہیں۔ مہاراشٹرا کے اسکولوں میں سہ لسانی پالیسی نافذ کرنے کا فڑنویس حکومت نے اعلان کیا تھا ۔ اس کیلئے کوششیں بھی شروع کردی گئی تھیں تاہم شیوسینا ادھو ٹھاکرے اور راج ٹھاکرے کی مہاراشٹرا نو نرمان سینا نے اس کی مخالفت کی اور کہا تھا کہ مراٹھی ریاست پر ہندی کو مسلط کیا جا رہا ہے ۔ ہندی مسلط کرنے کی کوششوں کے خلاف جنوبی ریاستوں میں بھی ناراضگی کا اظہار کیا جا رہا ہے ۔ حکومت ٹاملناڈو نے بھی مرکز کی کوششوں کے خلاف جدوجہد کا اعلان کیا تھا ۔ مہاراشٹرا میں شیوسینا ادھو ٹھاکرے اور ایم این یس دونوں نے ہی اس پالیسی کے خلاف جدوجہد کا اعلان کیا تھا اور اس کے خلاف احتجاجی ریلیوں کا بھی اعلان کردیا گیا تھا ۔ دونوں جماعتوں کی الگ الگ تواریخ میں ریلی نکالی جانے والی تھی ۔ دونوں جماعتوں کا الزام تھ کہ مہاراشٹرا حکومت مرکز کے اشاروں پر مراٹھی کو ختم کرتے ہوئے ہندی مسلط کرنا چاہتی ہے ۔ اس کیلئے عوامی ریلیوں کا اعلان بھی کردیا گیا تھا ۔ یہ اعلان ایسے وقت میں کیا گیا تھا جبکہ مہاراشٹرا میں ٹھاکرے برادران میں اتحاد کی بھی کوششیں ہو رہی تھیں۔ دونوں جماعتوں کے مابین انتخابی مفاہمت کی کوششیں تیز ہوگئی تھیں۔ اس کے امکانی اثرات کو محسوس کرتے ہوئے حکومت مہاراشٹرا نے سہ لسانی پالیسی پر عمل کو روک دینے کا فیصلہ کیا ہے اور یہ اعلان کیا گیا ہے کہ ماہرین کی ایک کمیٹی تشکیل دی جائے گی جو تفصیلی جائزہ لینے کے بعد اس تعلق سے رپورٹ پیش کرے گی ۔
مہاراشٹرا حکومت نے ٹھاکرے برادران کے امکانی اتحاد اور ان کے مراٹھی کیلئے احتجاج کے امکانی اثرات کو محسوس کرتے ہوئے ہندی کے تسلط کو روکنے کا فیصلہ کرلیا اور اس کا اعلان بھی کردیا گیا تھا ۔ اب مہاراشٹرا میں ایک اور تبدیلی ہوئی ہے ۔ حکومت کی جانب سے سہ لسانی پالیسی پر عمل کو روکنے پر شیوسینا ادھو ٹھاکرے اور ایم این ایس نے کامیابی کی ریلی نکالنے کا اعلان کردیا ہے ۔ اس اعلان کی خاص بات یہ ہے کہ اب دونوں جماعتوں کی جانب سے مشترکہ طور پر ایک ہی ریلی نکالی جائے گی جو 5 جولائی کو ہوگی ۔ کامیابی کے اس جشن کی خاص بات یہ ہوگی کہ ادھو ٹھاکرے اور راج ٹھاکرے دونوں ہی ایک اسٹیج پر ہونگے۔ کسی سیاسی اسٹیج پر دونوں ٹھاکرے بھائیوں کی موجودگی ریاست کی سیاست میں تبدیلی کی علامت سمجھی جا رہی ہے اور اس سے یہ بھی اشارے مل رہے ہیں کہ دونوں جماعتوں میں سیاسی مفاہمت اور اتحاد تقریبا طئے ہوچکا ہے اور اس کا مناسب وقت پر باضابطہ اعلان کردیا جائیگا ۔ تاہم وکٹری ریلی میں ایک ہی اسٹیج پر ودنوں بھائیوں کی آمد سے ریاست کے عوام کو اتحدا کا ایک پیام ضرور مل جائے گا ۔ دونوں جماعتوں کی جانب سے احتجاج کے اعلان نے ہی حکومت مہاراشٹرا کو اپنے قدم واپس لینے پر مجبور کیا تھا اور اس سے ادھو ٹھاکرے اور راج ٹھاکرے دونوں کے حوصلے بلند ہوئے ہیں اور اب انہوں نے مشترکہ وکٹری ریلی کا اعلان کردیا ہے ۔ اس سے مہاراشٹرا کی سیاست میں تبدیلی کے اشارے بہت واضح ہوگئے ہیں۔
ایم این ایس اور شیوسینا ادھو ٹھاکرے کا باضابطہ اتحاد ہوجاتا ہے تو اس سے مراٹھا عوام کے حوصلے بھی بلند ہونگے اور وہ بھی ان دونوں جماعتوں کے پرچم تلے ایک ہوسکتے ہیں۔ عوام میں یہ پیام تو ضرور پہونچ چکا ہے کہ دونوں کے امکانی اتحاد کی طاقت کو دیکھتے ہوئے ہی مہاراشٹرا حکومت نے سہ لسانی پالیسی پر عمل کو معطل کردیا ہے ۔ اسی طرح حکومت کے خلاف جدوجہد کیلئے دونوں جماعتوں کا ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوجانا عوام کی سوچ میں بھی تبدیلی پیدا کرسکتا ہے ۔ یہ تبدیلی صرف عوام تک محدود نہیں رہے گی بلکہ اس کے سیاسی قائدین اور کارکنوں پر بھی اثرات مرتب ہونگے اور وہ بھی تبدیلی کا حصہ بن سکتے ہیں۔