جموں و کشمیر اور ہریانہ کے اسمبلی انتخابات کے بعد اب ساری توجہ جھارکھنڈ اور مہاراشٹرا میں مجوزہ اسمبلی انتخابات پر مرکوز ہوگئی ہے ۔ دونوں ہی ریاستیں سیاسی اعتبارسے اہمیت کی حامل ہیں۔ ویسے تو ہر ریاست کے انتخابات اہمیت کے حامل ہوتے ہیں کیونکہ عوام اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کسی کو اقتدار سونپتی ہے تو کسی کو اپوزیشن کی ذمہ داری دیتی ہے ۔ تاہم مہاراشٹرا اور جھارکھنڈ کے انتخابات کے نتائج سیاسی اعتبار سے بہت اہمیت کے حامل ہونے والے ہیں۔ مہاراشٹرا ملک کی بڑی ریاستوں میں سے ایک ہے اور یہاں ممبئی شہر ملک کی تجارتی اور معاشی راجدھانی کہا جاتا ہے ۔ اسی طرح جھارکھنڈ کے نتائج پڑوسی ریاست بہار پر اثر انداز ہوسکتے ہیں اور وہاں کے نتائج قومی سطح پر سیاسی صف بندی کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوسکتے ہیں۔ اس صورتحال میں تمام جماعتیں ان دونوں ریاستوں کے انتخابی عمل کیلئے اپنے طور پر تیاریوں کا آغاز کرچکی ہیں۔ کانگریس پارٹی مہاراشٹرا میں این سی پی ( شرد پوار ) اور شیوسینا ( ادھو ٹھاکرے ) کے ساتھ مل کر انتخابات کا سامنا کرے گی ۔ جھارکھنڈ میں آر جے ڈی اور جھارکھنڈ مکتی مورچہ کے ساتھ کانگریس اتحادی جماعت ہے ۔ ایسے میں ان دونوں ہی ریاستوںاور خاص طور پر مہاراشٹرا کیلئے ایک مضبوط حکمت عملی کی ضرورت ہے ۔ جس طرح سے صورتحال ہریانہ میںپلٹ دی گئی ہے اور وہاں کانگریس کو اقتدار سے دور رکھا گیا ہے اس کو پیش نظر رکھتے ہوئے کانگریس کو اپنے طور پر کوئی موقع نہیں گنوانا چاہئے ۔ اب بھی پارٹی کے پاس وقت ہے ۔ اس کا بہتر استعمال کرتے ہوئے ممکنہ حد تک ووٹوںکی تقسیم کوروکنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔دو چار نشستوں کیلئے اختلاف رائے کو برقرار رکھتے ہوئے ووٹوں کی تقسیم کا موقع نہیں دیا جانا چاہئے ۔ ہریانہ میںعام آدمی پارٹی نے کانگریس کیلئے اقتدار کو مزید پانچ سال دور کر دیا ہے ۔ عام آدمی پارٹی ایک بھی نشست پر کامیابی حاصل نہیںکرسکی تاہم اس نے راست یا بالواسطہ طور پر کانگریس کو نقصان پہونچاتے ہوئے بی جے پی کو لگاتار تیسری معیاد کیلئے اقتدار حاصل کرنے میں مدد ضرور کی ہے ۔
ہر ریاست میں کچھ چھوٹی اور علاقائی جماعتیں ہوتی ہیں۔ وہ دو چار حلقوں میں اپنا اثر رکھتی ہیں اور ان کا ساتھ بڑی اور قومی سطح کی جماعتوں کیلئے اہمیت کا حامل ہوتا ہے ۔ مہاراشٹرا میں یہ صورتحال موجود ہے ۔ کچھ علاقائی اور مقامی سطح کی جماعتیں ہیں جو اپنا حلقہ اثر کچھ حد تک ضرور رکھتی ہیں۔ ان کا ووٹ بینک ہوتا ہے اور وہ رائے دہندوں پر اثرانداز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اگر ان جماعتوں کو اتحاد میں شامل کرنے پر توجہ دی جائے تو بڑی جماعتوںکو شائد دو ایک نشستوں کی قربانی دینی پڑے ۔ ریاست میں اقتدار حاصل کرنے اور بی جے پی کو اقتدار سے باہر رکھنے کیلئے اتنی قربانی کوئی اہمیت نہیںرکھتی ۔ اس نکتہ کو تمام بڑی جماعتوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ اپنے حلقہ اثر کو پیش نظر رکھتے ہوئے علاقائی اور مقامی جماعتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے بی جے پی کو اقتدار کا تحفہ دینا عقل مندی یا فراست نہیں ہوسکتی ۔ اس کے علاوہ ان جماعتوں کو شامل کرتے ہوئے دوسرے حلقوں بلکہ ریاست کے بڑے حصہ کے عوام کو یہ تاثر دیا جاسکتا ہے کہ سبھی کو ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت ان بڑی جماعتوںمیں موجود ہے اور وہ متحدہ طور پر عوام سے رجوع ہوتے ہوئے ان کی تائید و حمایت اور ان کا ووٹ حاصل کرسکتے ہیں۔ بی جے پی کو روکنے کیلئے ہر جماعت کو اپنے طور پر دو ایک نشستوں کی قربانی کیلئے تیار رہنا چاہئے ۔ ایک جامع اور مضبوط حکومت عملی ہی بی جے پی کو اس کے ہتھکنڈوں کو کامیابی سے ہمکنار کرنے سے روک سکتی ہے ۔
ہریانہ میں جس طرح سے اتحاد نہ ہونے کی وجہ سے ووٹوں کے تناسب میں انتہائی معمولی کمی کی وجہ سے کانگریس پیچھے رہ گئی اور بی جے پی کسی طرح سے اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے ۔ کانگریس ہو یا شرد پوار کی این سی پی ہو یا پھر ادھو ٹھاکرے کی شیوسینا ہو سبھی کو ایک مضبوط حکومت عملی بنانے پر توجہ دینی چاہئے ۔ عوام میں اتحاد و اتفاق کا پیغام دیا جانا چاہئے ۔ بے تکان جدوجہد کی جانی چاہئے ۔ بی جے پی یا اس کی حلیفوں کو ایسا کوئی موقع نہیں دینا چاہئے جس کی وجہ سے کانگریس یا اتحادی جماعتوں کو کوئی نقصان ہوسکے ۔ ان ریاستوں کی سیاسی اہمیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے سبھی کو سرگرم ہوجانے کی ضرورت ہے ۔