دیکھ کر وقت کے بدلے ہوئے تیور میں نے
رکھ لیا سینۂ احساس پہ پتھر میں نے
مہاراشٹرا میں اسمبلی انتخابات کے نتائج نے جہاں مہایوتی اتحاد میں خوشیوں کی لہر دوڑا دی تھی اور اسے بھاری اکثریت کے ساتھ اقتدار سونپا تھا اس کے بعد اتحاد میں سب کچھ ٹھیک دکھائی نہیں دے رہا ہے ۔ چیف منسٹر کے انتخاب کیلئے نتائج کے اعلان کے بعد 10 دن کا وقت درکار ہوا ۔ اس کے بعد کابینہ کی تشکیل کیلئے بھی مزید 10 دن درکار ہوئے اور جیسے ہی کابینہ کی تشکیل عمل میں لائی گئی اور وزراء کو حلف دلایا گیا اس کے بعد مہایوتی اتحاد کی حصہ دار تینوں ہی جماعتوں میں ناراضگی کی لہر پیدا ہوگئی ۔ کئی سینئر قائدین ایسے ہیں جنہیں یہ یقین تھا کہ انہیں نئی کابینہ میں شامل کیا جائے گا لیکن ان کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا اور اب وہ کھلے عام ناراضگی کا اظہار کرنے لگے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ صورتحال مہایوتی اتحاد کی ایک ہی جماعت میں ہے ۔ تینوں ہی جماعتیں اس طرح کی ناراضگی کا شکار ہیں۔ شیوسینا ایکناتھ شنڈے گروپ کے ایک رکن اسمبلی نے تو پارٹی عہدوں سے استعفی بھی پیش کردیا ہے اور دوسری جماعتوں کے قائدین بھی کھلے عام اس صورتحال پر ناراضگی کا اظہار کر رہے ہیں۔ جس طرح سے حکومت سازی میں مہایوتی اتحاد کو مشکلات پیش آئی تھیں اسی طرح کابینہ کی تشکیل کے بعد بھی صورتحال مشکل ہی پیدا ہوگئی ہے ۔ تینوں ہی جماعتوں کے تعلق سے کہا جا رہا ہے کہ انہیںصرف اقتدار کے حصول سے دلچسپی تھی اور تمام بڑے قائدین خود اعلی عہدے حاصل کرتے ہوئے دوسروں کی خواہشات پر توجہ دینے کے موقف میں نظر نہیں آ رہے ہیں۔ دیویندر فڑنویس خود ریاست میں ایک بار پھر چیف منسٹر بن گئے ہیں۔ بڑی مشکل سے ایکناتھ شنڈے کو ڈپٹی چیف منسٹر کا عہدہ قبول کرنے کیلئے راضی کیا گیا ۔ اجیت پوار پہلے بھی ڈپٹی چیف منسٹر تھے اور اب بھی یہی عہدہ انہیں دیا گیا ہے ۔ اس طرح تینوں ہی اپنی اپنی کرسی پر فائز ہوگئے ہیں تاہم ان کا ساتھ دینے والے ارکان اسمبلی کو ایسا لگتا ہے کہ تینوں ہی نے نظر انداز کردیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ سینئر ارکان بھی اب کابینہ میںجگہ پانے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔ کابینہ میں عدم شمولیت کے بعد وہ اور ان کے حامی مایوس ہیں اور ناراضگی کا اظہار کر رہے ہیں۔
کسی بھی اتحادی حکومت میں حلیف جماعتوں میں اطمینان کی کیفیت اہم ہوتی ہے ۔ حلیف جماعتوں کے قائدین میں ایک دوسرے کے تعلق سے بے چینی کی کیفیت نہیں ہونی چاہئے ۔ تاہم مہاراشٹرا میں صورتحال ابتداء ہی سے بگڑتی دکھائی دے رہی ہے۔ حالانکہ حکومت کو اس سے کسی طرح کے مسائل درپیش نہیں آئیں گے کیونکہ حکومت کے پاس درکار اکثریت سے زیادہ ارکان موجود ہیں لیکن حکومت میںشامل جماعتوں میں بے چینی کی کیفیت ضرور دکھائی دے رہی ہے اور یہ جماعتوں کیلئے کوئی اچھی علامت نہیں کہی جاسکتی ۔ بات کسی ایک وزیر یا کسی ایک جماعت تک محدود نہیں ہے ۔ مہایوتی کی سابقہ حکومت کے گیارہ وزراء کو نئی کابینہ میں جگہ نہیں دی جاسکی ہے ۔ ان کی جگہ نئے چہروں کو زیادہ تعداد میں کابینہ میںشامل کیا گیا ہے ۔ جو چہرے کابینہ میں جگہ نہیں پاسکے وہ سینئر قائدین ہیں اور انہوں نے اپنی اپنی پارٹیوں کی کامیابیوں میں اپنے اپنے علاقوں میں اہم اور سرگرم رول ادا کیا ہے ۔ انہیں امید تھی کہ وہ پارٹی کیلئے جدوجہد کر رہے ہیںتو اقتدار ملنے پر انہیں اس کا صلہ ضرور دیا جائیگا تاہم ایسا ہوا نہیں ہے ۔ انہیں نظر انداز کرتے ہوئے نئے چہروں کو کابینہ میں شامل کرلیا گیا ہے جس پر یہ قائدین بری طرح سے مایوس ہوگئے ہیں اور ان کے حامیوں میں بھی یہی صورتحال پیدا ہوگئی ہے ۔ حالانکہ کابینہ کی تشکیل پوری ہوچکی ہے اور اب مزید کوئی گنجائش باقی نہیں ہے تاہم ان قائدین کو منانے کیلئے تینوں ہی جماعتوں کو جدوجہد کرنی پڑسکتی ہے ۔
جس طرح شیوسینا کے ایک رکن اسمبلی مستعفی ہوگئے ہیں اسی طرح دوسرے قائدین کے بھی کسی فیصلے کے اندیشے پیدا ہونے لگے ہیں۔ کچھ قائدین کھلے عام بیان بازی کرتے ہوئے ناراضگی کا اظہار کر رہے ہیں جس سے دوسروں کو بھی اظہار خیال کا حوصلہ مل سکتا ہے ۔ حکومت تشکیل دئے جانے کے چند دن کے اندر اس طرح کی صورتحال تینوں ہی جماعتوں کی سیاست پر ضرور اثر انداز ہوسکتی ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ بی جے پی ‘ شیوسینا ( شنڈے گروپ ) اور این سی پی ( اجیت پوار ) اس صورتحال سے کس طرح نمٹ پاتے ہیں اور کس طرح سے سینئر قائدین کی ناراضگی کو دور کرنے میں انہیںکامیابی مل سکتی ہے ۔