مولانا محمد انعام الحق قاسمی
حضرت علیؓ نے اپنی زرہ حضرت عثمانؓ کو۴۸۰ درہم میں فروخت کردی اور جاتے وقت حضرت عثمانؓ نے وہ زرہ حضرت علیؓ کو ازراہِ محبت تحفے میں مرحمت کردی۔ اسی زرہ کے پیسے سے حضرت فاطمہؓ کے گھر گرہستی کا سامان خریدا اور حضرت عائشہؓ اور ام سلمہؓ کو حکم دیاکہ حضرت علیؓ اور فاطمہؓ کے ساتھ ان کے گھر تک جاوٴ۔ اس حدیث سے صرف یہ ثابت ہوتاہے کہ یہ سارے سامان حضرت علیؓ کے پیسے سے خریدے گئے تھے، نہ کہ آپ ﷺنے حضرت فاطمہؓ کو جہیز میں دیاتھا اس کو جہیزلینے اور دینے کے لیے کسی طرح حجت نہیں بنایا جاسکتاہے ۔جولوگ داماد اور اس کے گھر والوں کو بغیرمطالبہ کے اپنی استطاعت کے مطابق بیٹی کو جو سامان دیتے ہیں وہ تحفہ اور ہدیہ ہے ۔ مہرکے ساتھ جہیز میں دیئے گئے تمام سامان کی مالک لڑکی ہے،اسے بلاشرکت غیر تصرف کا حق ہے۔
جہیز کی سماجی تباہ کاریاں
آج ہمارا معاشرہ طرح طرح کی برائیوں کی آماجگاہ بنتاجارہاہے۔ جس کی وجہ سے امن وسکون ، انسانیت ، رواداری ، انسان دوستی ، آپسی الفت و محبت اور بھائی چارگی کی لازوال دولت رخصت ہوتی جارہی ہے۔ آج ہمارے سماج کو جن داخلی برائیوں کا سب سے بڑا چیلنج ہے، ان میں سے ایک ”جہیز کی لعنت“ بھی ہے۔ جہیز ایک خطرناک کیڑے اور ناسور کی طرح بڑی تیزی کے ساتھ ہماری سماجی زندگی کی ہڈیوں کو گھلاتاجارہاہے۔ جس کا ہمیں ذرہ برابر بھی احساس نہیں۔ رسمِ جہیز نے اپنے ساتھ سماجی تباہ کاری وبربادی کا جو نہ تھمنے والا طوفان برپا کیاہے ، اس نے بر صغیر ہندو پاک کے معاشرہ کا جنازہ نکال کر رکھ دیاہے۔آج ہماری سوسائٹی جہیز کی وجہ سے جن مصیبتوں میں گرفتار ہوتی جارہی ہے، وہ مختلف النوع ہونے کے ساتھ ساتھ بڑے ہی ضرر رساں پہلووٴں پر محیط ہیں۔ جن کو ہم ان مختلف قسموں میں بانٹ سکتے ہیں:
(۱) خانہ تباہی: اگر لڑکی اپنی حیثیت سے زیادہ جہیز لاتی ہے تو اس کے والدین اس قدر مقروض ہوجاتے ہیں کہ اس سے سبکدوشی کے لیے دن رات ایک کرکے اپنا چین و سکون برباد کرلیتے ہیں۔ اگر جہیز لڑکے والوں کے حسب منشا نہیں ہے تو لڑکی کو بیجا تشدد کا نشانہ بنایا جاتاہے اور طعن وتشنیع کی بوچھاڑ کرکے اس کا جینا دو بھر کردیتے ہیں اگر لڑکی والے طاقتور ہیں تو پھر مقدمہ بازی کا ایک لامحدود سلسلہ شروع ہوجاتاہے جس میں بسا اوقات کتنے ہی گھر تباہ و برباد ہوجاتے ہیں۔
(۲) مہر کی زیادتی : جہیز کی لعنتوں کی ما رجھیل رہا سماج اب کثرت مہر کی پریشانیوں سے دو چار ہوتا جارہاہے؛ اس لیے کہ جب لڑکے والے جہیزکی خاطر اپنی حمیت و غیرت کا سودا کرنے پر بضد ہوجاتے ہیں تو پھر نکاح کے وقت لڑکی والے کی جانب سے مہر کی ایک خطیر رقم کی فرمائش ہوتی ہے، چونکہ لڑکے والے اپنی بے شرمی و بے حیائی کی وجہ سے مواقع گنوا چکے ہوتے ہیں ، لہٰذا لڑکے کو مجبوراً قبول کرنی پڑتی ہے جوکہ لڑکے کی حیثیت سے زیادہ اور اس کی طاقت کے باہر ہوتی ہے۔اور شریعت کے خلاف ہے۔ حضرت عمر بن خطاب ؓفرماتے ہیں کہ خبر دار عورتوں کے مہر میں زیادتی نہ کیاکرو؛ کیونکہ اگر یہ دنیا میں عزت اور اللہ کے نزدیک پرہیزگاری ہوتی تو اس کے سب سے زیادہ مستحق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہوتے مجھے نہیں معلوم کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بارہ اوقیہ سے زیادہ پر اپنی کسی بیوی سے نکاح کیا یا اپنی کسی بیٹی کا نکاح کرایاہو۔ اگر کوئی عورت دھوکہ سے بھی مہر کا مطالبہ کر بیٹھتی ہے تو پھر اس کی خیریت نہیں ہے، شوہر کی ناراضگی اور غصہ کا سامناتو اس کو کرنا ہی پڑتاہے اوپر سے ساس، سسر، نند اور دیگر اہلِ خانہ کی جلی بھُنی بھی اس کو سننی پڑتی ہے،کیونکہ اس وقت اس کا مطالبہ شوہر اور اس کے اہل خانہ کی ناک اور انا کامسئلہ چھیڑدیتاہے۔لہٰذا کوئی عورت بھول سے بھی اس غلطی کو دہرانا نہیں چاہتی۔ حالانکہ مہر عورت کا شوہر پر جبری حق ہے، جس کا ادا کرناشوہر پر واجب ہے، اگر اداکیے بغیر شوہر مرجاتاہے تو قیامت کے دن اس مرد سے اس کے بارے میں بازپرس ہوگی۔بعض حالات میں زوجین کے مابین مزاج کی عدم موافقت یا بیوی کی بدچلنی اور بداخلاقی کے باوجود شوہر کثرت مہر کی وجہ سے اپنی بیوی کو طلاق نہیں دے سکتا، پھر شوہر ایک مقید پنچھی کی طرح پھڑپھڑا کر صبر وتحمل کا راستہ اختیار کرلیتاہے ۔ اگر کوئی باغیرت انسان اس طرح کی بدچلن عورت سے نجات حاصل کرنے کیلئے عزم مصمم کرلیتاہے تو مہر کی اس خطیر رقم کو ادا کرنے میں اپنی ہر کوشش صرف کردیتاہے، پھر نوبت مفلسی اور محتاجگی تک آپہنچتی ہے ۔جس کا حاصل خانہ بربادی کے سوا کچھ نہیں ہے۔
(۳) کثرت طلاق: رسم جہیز نے جوہمارے سماج میں تباہی و بربادی کے دروازے کھولے ہیں، ان میں سے ایک کثرت طلاق ہے۔آج کثرتِ جہیز کی لالچ میں طلاق دے کر اصول اسلام کا کھلا مذاق اڑایا جارہا ہے۔اسلام نے ناگزیر حالت میں مرد کو طلاق کا اختیار دیاہے، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اپنے ناجائز مطالبات کومنوانے کیلئے اس کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جائے ۔حدیث میں ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے جن چیزوں کو حلال کیا ہے، ان میں اللہ کے نزدیک طلاق سب سے زیادہ ناپسندیدہ ہے ۔ ( سنن ابوداود )