مہر مطلقہ قبل خلوت

   

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید کا عقد ہندہ کے ساتھ ہوا۔ پہلی ہی شب زید دیگر عزیز و اقارب اور براتیوں نے دیکھا کہ ہندہ مجنونانہ حرکات کررہی ہے وہ زید پر حملہ آور بھی ہورہی تھی۔ ہندہ کے والدین نے بھی ہندہ کی افہام و تفہیم کی لیکن وہ ان حرکات سے باز نہ آئی۔ اس وجہ سے خلوت صحیحہ نہیں ہوسکی ، زید نے اپنی جان کی حفاظت کی خاطر ہندہ کو طلاق بائن دیدی ۔ان حالات میں کیا ہندہ زید سے مہر پانے کی مستحق ہے ؟ بینوا تؤجروا
جواب : صورت مسئول عنہا میں بشرط صحت سوال ہندہ کی مجنونانہ حرکات کی وجہ خلوت صحیحہ سے قبل زید نے طلاق دیدی ہے تو ہندہ مہر مقررہ کا نصف مہر پانے کی مستحق ہے۔ ہدایہ کے کتاب النکاح باب المہر میں ہے وان طلقھا قبل الدخول والخلوۃ فلھا نصف المسمی۔ فقط واللہ أعلم

ابوزہیر سید زبیر ھاشمی نظامی
جس کے پاس تقویٰ ہے، وہی عزت والا ہے
رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی اصل اور حقیقت کے بارے میں اس فرمان حق تعالی کے ذریعہ انسانی حقوق اور غربت کے استحصال کے تمام راستے بند کردیئے۔ ’’اے لوگو! ہم نے تمھیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمھیں گروہوں اور قبیلوں میں بنایا، تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو‘‘۔ایمان، عبادات، قانون، حقوق جان و مال اور عزت کے تحفظ کے بارے میں مساوات کا درس دے کر واضح فرمادیا کہ فضل و شرف کی بنیاد نسل و رنگ، ذات پات، قبیلہ اور خاندان نہیں، بلکہ تقویٰ، صالحیت اور اخلاق حسنہ ہے۔ حجۃ الوداع کے موقع پر آپ نے فرمایا ’’اے لوگو! بے شک تمہارا رب ایک ہے، عربی کو عجمی پر، عجمی کو عربی پر، گورے کو کالے پر اور کالے کو گورے پر کوئی فضیلت نہیں ہے، مگر تقویٰ کے سبب۔ جس کے پاس تقویٰ ہے، وہی اللہ کے پاس عزت والا ہے‘‘۔
سرزمین عرب پر ایام جاہلیت میں معاشرے کی نظر میں خواتین کی جو قدر و قیمت تھی، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ لڑکیوں کو زندہ دفن کردیا جاتا تھا۔ کوئی مرد یہ خبر سنتا کہ لڑکی پیدا ہوئی ہے تو غصہ سے اس کا منہ سرخ ہو جاتا تھا۔ ایک صحابی نے ایام جاہلیت میں اپنی بیٹی کو زندہ دفن کرنے کا دردناک واقعہ جب سنایا تو وہ خود بھی روئے اور سرکار دوعالم ﷺ بھی رونے لگے۔ہندوستان کا حال بھی کچھ ایسا ہی تھا، یہاں مرنے والے شوہروں کے ساتھ ان کی بیویاں زندہ جلائی جاتی تھیں، جس کو ستی کا نام دیا گیا تھا۔رسول پاک ﷺ کی رحمت نے عورتوں پر بڑا رحم فرمایا اور ان کو پستیوں سے بلندیوں پر پہنچایا۔ یعنی اللہ تعالی نے ایسا رؤف و رحیم رسول مبعوث فرمایا، جس نے دنیا کی چیزوں میں سے خوشبو اور عورت کو پسند فرمایا اور آپ نے سب سے پہلے ایک بیوہ عورت سے نکاح فرماکر اس کو عزت بخشی۔
حضور رحمۃ للعالمین ﷺکو بچے بہت عزیز تھے۔ آپﷺ کی تعلیم رحمت میں بچوں کے لئے خصوصی باب ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ ’’جو ہمارے چھوٹے پر شفقت نہ کرے اور ہمارے بڑے کا ادب نہ کرے، وہ ہم میں سے نہیں‘‘۔ لڑکیوں کو بلا اور مصیبت سمجھنے والوں کو اس ارشاد مبارکہ کے ذریعہ یقین دلایا کہ لڑکیوں کا وجود باعث رحمت ، شفاعت و مغفرت ہے۔ فرمایا ’’جو دو لڑکیوں کی پرورش کرے، یہاں تک کہ وہ بڑی ہوجائیں تو قیامت میں میرا اور اس کا قرب دو انگلیوں کو اُٹھاکر فرمایا، یوں ہوگا‘‘۔