مہمان کے آنے پر خوشی اور محبت کا اظہار کیجئے اور نہایت خوش دلی ، وسعت قلب اور عزت و اکرام کے ساتھ اس کا استقبال کیجئے ۔ تنگ دلی ، بے رُخی ، سردمہری اور کڑھن کا اظہار ہرگز نہ کیجئے ۔’’ جو لوگ خدا اور یوم آخرت پر یقین رکھتے ہیں انہیں اپنے مہمان کی خاطر تواضع کرنی چاہئے ۔ ‘‘ خاطر تواضع کرنے میں وہ ساری ہی باتیں داخل ہیں ، جو مہمان کے اعزاز و اکرام ، آرام و راحت ، سکون و مسرت اور تسکین جذبات کیلئے ہوں ، خندہ پیشانی اور خوش اخلاقی سے پیش آنا ، ہنسی خوشی کی باتوں سے دل بہلانا ، عزت و اکرام کے ساتھ بیٹھنے لیٹنے کا انتظام کرنا ، اپنے معزز دوستوں سے تعارف اور ملاقات کرانا ، اس کی ضروریات کا لحاظ رکھنا ، نہایت خوش دلی اور فراخی کے ساتھ کھانے پینے کا انتظام کرنا اور خود بنفس نفیس خاطر مدارات میں لگے رہنا یہ سب ہی باتیں اکرام مہمان میں داخل ہیں ۔ نبی رحمتؐ کے پاس جب معزز مہمان آتے تو آپؐ خود بنفس نفیس ان کی خاطرداری فرماتے ۔ جب آپؐ مہمان کو اپنے دسترخوان پر کھانا کھلاتے تو بار بار فرماتے اور کھایئے اور کھایئے ۔ جب مہمان جتنا وہ کھانا چائے ، کھا لیتا اور پھر انکار کرتا تب آپؐ اصرار نہیں کرتے ۔ مہمان کے آنے پر سب سے پہلے اس سے سلام دعا کیجئے اور خیر و عافیت معلوم کیجئے ۔ دل کھول کر مہمان کی خاطر تواضع کیجئے اور جو اچھے سے اچھا میسر ہو مہمان کے سامنے فوراً پیش کیجئے ۔ نبی رحمتؐ نے مہمان کی خاطر داری پر جس انداز سے اُبھارا ہے اس کا نقشہ کھینچتے ہوئے ایک صحابی رسول ؐ فرماتے ہیں ’’ میری ان دو آنکھوں نے دیکھا اور ان دوکانوں نے سنا جب کہ نبیؐ یہ ہدایت دے رہے تھے ’’ جو لوگ خدا اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہوں ، انہیں اپنے مہمانوں کی خاطر تواضع کرنی چاہئے ۔ مہمان کے انعام کا موقع پہلا شب و روز ہے ۔ پہلے شب و روز کی میزبانی کو انعام سے تعبیر کرنے کا مفہوم یہ ہے کہ جس طرح انعام دینے والا دل کی انتہائی خوشی اور محبت کے گہرے جذبات کے ساتھ انعام دیتے ہوئے روحانی سرور محسوس کرتا ہے ، ٹھیک یہی کیفیت پہلے شب و روز میں میزبان کی ہونی چاہئے اور جس طرح انعام لینے والا مسرت و شادمانی کے جذبات سے سرشار انعام دینے والے کے احساسات کی قدر کرتے ہوئے اپنا حق سمجھ کر انعام و صول کرتا ہے ، ٹھیک اسی کیفیت کا مظاہرہ پہلے شب و روز میں مہمان کو بھی کرنا چاہئے اور بغیر کسی جھجک کے اپنا حق سمجھتے ہوئے خوشی اور قربت کے جذبات کے ساتھ میزبان کی پیشکش قبول کرنی چاہئے ۔ مہمان کے آتے ہی اس کی انسانی ضرورتوں کا احساس کیجئے ۔ رفع حاجت کیلئے پوچھئے ، منہ ہاتھ دھونے کا انتظام کیجئے ۔ ضرورت ہو تو غسل کا انتظام بھی کیجئے ۔ کھانے پینے کا وقت نہ ہو جب بھی معلوم کر لیجئے اور اس خوش اسلوبی سے کہ مہمان تکلف میں انکار نہ کرے ۔ جس کمرے میں لیٹنے بیٹھنے اور ٹھہرانے کا نظم کرنا ہو وہ مہمان کو بتادیجئے ۔ ہر وقت مہمان کے پاس دھرنا مارے بیٹھے نہ رہئے اور اسی طرح رات گئے تک مہمان کو پریشان نہ کیجئے تاکہ مہمان کو آرام کرنے کا موقع ملے اور وہ پریشانی محسوس نہ کرے ۔ جب مہمان آئے تو ان کے کھانے پینے کا انتظام کرنے کیلئے مہمانوں سے کچھ دیر کیلئے الگ ہوجایئے ۔ مہمانوں کے کھانے پینے پر مسرت محسوس کیجئے ، تنگ دلی ، کڑھن اور کوفت محسوس نہ کیجئے ۔ مہمان زحمت نہیں بلکہ رحمت اور خیر و برکت کا ذریعہ ہوتا ہے اور خدا جس کو آپ کے یہاں بھیجتا ہے اس کا رزق بھی اُتار دیتا ہے ، وہ آپ کے دسترخوان پر آپ کی قسمت کا نہیں کھاتا بلکہ اپنی قسمت کا کھاتا ہے اور آپ کے اعزاز و اکرام میں اضافہ کا باعث بنتا ہے ۔ مہمان کی عزت و آبرو کا بھی لحاظ رکھئے اور اس کی عزت و آبرو کو اپنی عزت و آبرو سمجھئے ۔ آپ کے مہمان کی عزت پر کوئی حملہ کرے تو اس کو اپنی غیرت و حمیت کے خلاف چیلنج سمجھئے ۔ تین دن تک انتہائی شوق اور ولولے کے ساتھ میزبانی کے تقاضے پورے کیجئے ۔ تین دن تک کی ضیافت مہمان کا حق ہے اور حق ادا کرنے میں مومن کو انتہائی فراخدل ہونا چاہئے ۔ پہلا دن خصوصی خاطر مدارات کا ہے اس لئے پہلے روز مہمان نوازی کا پورا پورا اہتمام کیجئے۔ بعد کے دو دنوں میں اگر وہ غیر معمولی اہتمام نہ رہ سکے تو کوئی مضائقہ نہیں ۔ مہمان کی خدمت کو اپنا اخلاقی فرض سمجھئے اور مہمان کو ملازموں یا بچوں کے حوالے کرنے کے بجائے خود اس کی خدمت اور آرام کا خیال رکھیئے ۔ کھانے کیلئے جب ہاتھ دھلائیں تو پہلے خود ہاتھ دھوکر دسترخوان پر پہنچے اور پھر مہمان کے ہاتھ دھلوایئے ۔ کھانے سے پہلے تو میزبان کو پہلے ہاتھ دھونا چاہئے اور دسترخوان پر پہنچ کر مہمان کو خوش آمدید کہنے کیلئے تیار ہوجانا چاہئے اور کھانے کے بعد مہمانوں کے ہاتھ دھلوانے چاہئیں اور سب کے بعد میزبان کو ہاتھ دھونے چاہئیں ہوسکتا ہے کہ اُٹھتے اُٹھتے کوئی اور آ پہنچے ۔
(باقی سلسلہ آئندہ )