ہم یہ سمجھ رہے ہیں کہ کچھ روشنی ہوئی
سورج کے غم میں چاند ستارے جو جل گئے
نئی تعلیمی پالیسی
ہندوستان میں تعلیمی اداروں کے لیے بنائے گئے اصولوں پر عمل آوری میں کوتاہیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے مرکزی حکومت نے نئی تعلیمی پالیسی 2019 کا مسودہ تیار کیا ہے ۔ اس مسودہ کا طویل مدت سے انتظار تھا ۔ تعلیمی شعبہ میں ماقبل بچپن تعلیم اور قانونی تعلیم کے لیے حق تعلیم قانون جیسے اقدامات کئے گئے ہیں ۔ تعلیم کے لیے بجٹ میں دو گنا اضافہ کیا گیا ۔ اساتذہ ٹیچرس کے میکانزم کو غیر مرکوز کرنے کو مضبوط بنایا گیا اور اسکول تغذیہ پروگرام کی حمایت کرتے ہوئے اس میں توسیع دی گئی ۔ اس میں اسکول آنے والے طلباء کے لیے ناشتہ فراہم کرنا بھی شامل ہے ۔ ان اسکیمات میں سے کئی اسکیمات کے لیے طویل مدت سے مطالبہ ہورہا تھا ۔ سماج کے اندر تعلیمی شعبہ کے لیے کئے جانے والے اقدامات کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے لیکن ان اقدامات کے ساتھ ساتھ اس پالیسی کو قطعیت دی جانے سے قبل اس پالیسی کے عواقب و نتائج پر غور کرنا ضروری ہے ۔ بلاشبہ اس پالیسی میں بعض اثباتی اصول و ضوابط وضع کئے گئے ہیں ۔ لیکن تعلیم کو منافع بخش تجارت بنانے کی غرض سے اسکولوں کو قائم کرنے والے انتظامیہ کو پابند کرنا ضروری ہے ۔ معیاری نصاب کی تیاری اورطلباء کی تعلیمی صلاحیتوں پر کڑی نظر رکھنے کے علاوہ فیس کی وصولی میں تعلیمی پالیسی کے قواعد پر عمل کرنا ضروری ہے ۔ تعلیمی اداروں کو تجارتی اداروں میں تبدیل کرنے کی کوشش کو بھی روکنا متعلقہ حکام کا کام ہے ۔ ان دنوں اعلیٰ تعلیمی ادارے اور اس کا انتظامیہ بھی من مانی فیس کی وصولی کے ذریعہ حصول تعلیم کے مقصد کو نقصان پہونچا رہا ہے ۔ اسکولوں کے معیاری اصولوں کی خلاف ورزی کی جارہی ہے ۔ مسلمہ سرکاری اسکولوں کے لیے جو قواعد بنائے گئے ہیں ان پر خانگی اسکولس عمل نہیں کرتے ۔ خانگی اسکولوں کا نصاب اور فیس کی وصولی کے طور طریقہ اپنے طور پر وضع کر کے انتظامی کمیٹی کے ارکان کی جانب سے من مانی کی جانے کی شکایات عام ہیں ۔ سرکاری اسکولوں کو ہی اگر خانگی اسکول انتظامیہ کے خطوط پر ترقی دی جائے اور نصاب کی تیاری کے اصول میں بہتری لائی جائے تو بچوں کو اچھی اور آسانی سے تعلیم حاصل ہوگی ۔ بعض خانگی اسکولس اپنی تشہیر اور بلند بانگ دعوؤں کے ذریعہ اولیائے طلباء کو گمراہ کرتے ہیں ۔ حالیہ سروے سے پتہ چلتا ہے کہ خانگی اسکولوں میں بھی تعلیمی معیار کے بجائے فیس کی وصولی پر زیادہ توجہ دی جارہی ہے ۔ اولیائے طلباء کو اچھے اسکولوں کے انتخاب میں مشکل پیش آرہی ہے ۔ عام طور پر بچوں کی تعلیم کی فکر رکھنے والے والدین بڑی عمارتوں ، کشادہ کلاس رومس ، کھلے میدان کے حامل اسکولوں میں اپنے بچوں کے داخلے کو ترجیح دیتے ہیں لیکن ایسے اسکولس نصاب کی تیاری اور تعلیمی مظاہرے میں لاپرواہی سے کام لیتے ہیں ۔ نتیجہ میں طلباء کا تعلیمی معیار افسوسناک ہوجاتا ہے ۔ حکومت کی سطح پر جو تعلیمی پالیسی تیار کی جارہی ہے یا جاری کی جائے تو اس کے لیے خاص باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے ۔ پالیسی بنانے اور اس پر عمل کرنے تک کا وقفہ طویل ہوجائے تو پھر تعلیمی نصاب کا معیار ہی تبدیل ہوجائے گا ۔ سرکاری اسکولوں کو بہتر بنانے کے لیے اگرچیکہ حکومت کی سطح پر تعلیمی بجٹ میں اضافہ کا اعلان ہوتا ہے مگر عملی طور پر سرکاری اسکولس کا انفراسٹرکچر ، دیکھ بھال اور تعلیمی معیار پر توجہ دینے کا عمل صفر ہوجاتا ہے ۔ نتیجہ میں والدین اپنے بچوں کو خانگی اسکولوں میں شریک کرانے کے لیے مجبور ہوتے ہیں ۔ ورلڈ بینک 2018 کی عالمی ترقیاتی رپورٹ میں خانگی اسکولوں کی اہمیت کی جانب اشارہ دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ خانگی اسکولس ہی اچھی تعلیم فراہم کرتے ہیں کیوں کہ یہ اسکولس ایسے طلباء کو ہی داخلہ دیتے ہیں جن کا خاندانی پس منظر نمایاں اور مستحکم ہوتا ہے جو فیس ادا کرنے کی استطاعت کرتے ہیں ۔ ورنہ وہ ایک معیاری تعلیم دینے سے قاصر ہوتے ہیں ۔ ہندوستانی سرکاری و خانگی اسکولوں کے بارے میں تحقیق کرنے والوں نے یہ بھی بتایا کہ خانگی اسکولوں میں داخلوں کی شرح بڑھ رہی ہے اور سرکاری اسکولوں میں اس شرح میں کمی دیکھی جارہی ہے ۔ اس لیے مرکز کی تعلیمی پالیسی کو اس خطوط پر تیار کرنے کی ضرورت ہے کہ ہر ضرورت مند اور دور دراز رہنے والے علاقوں کے عوام تک بہتر تعلیم کی فراہمی کو یقینی بنایا جاسکے ۔۔