پیکرِ خاک ہوں مگر زیرِ قدم ہے کائنات
میں ہی میرا حریف ہوں خود ہی سے کھارہا ہوں مات
نائب صدر جمہوریہ ہند جگدیپ دھنکڑ نے پیر کی شام اچانک ہی اپنے عہدہ سے استعفی پیش کردیا ۔نائب صدر جمہوریہ نے اپنا مکتوب استعفی صدرجمہوریہ ہند شریمتی دروپدی مرمو کو روانہ کردیا اور منگل کو صدر جمہوریہ نے ان کا استعفی قبول بھی کرلیا ۔ مسٹر جگدیپ دھنکڑ نے پیر کی شام تک پوری توانائی کے ساتھ راجیہ سبھا کی کارروائی چلائی تھی اور انہوں نے اپوزیشن کی جانب سے ایک جج کے خلاف پیش کی گئی تحریک کو بھی قبول کرلیا تھا ، انہوں نے پارلیمنٹ سکریٹری کو اس پر کارروائی کا آغاز کرنے کی بھی ہدایت دی تھی ۔ جس وقت ایوان سے ان کی واپسی ہوئی تھی اس وقت کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ اس طرح کا اچانک فیصلہ کریں گے ۔ انہوں نے رات میں اچانک ہی استعفی کا اعلان بھی کردیا اور اپنا استعفی صدر جمہوریہ کو روانہ بھی کردیا ۔ آج نائب صدر کی حیثیت سے مسٹر دھنکڑ نے راجیہ سبھا میں کوئی وداعی خطاب بھی نہیں کیا ۔ یہ شائد ہندوستان میںپہلا موقع ہے جب کسی نائب صدر جمہوریہ نے اچانک ہی اپنا استعفی پیش کردیا ہو۔ حالانکہ نائب صدر نے استعفی کیلئے صحت سے متعلق وجوہات پیش کی ہیں اور کہا کہ وہ صحت کو ترجیح دینگے تاہم ایسا کوئی واقعہ کسی کے علم میں نہیں ہے جہاںنائب صدر جمہوریہ کی صحت کے تعلق سے کسی طرح کے اندیشے لاحق ہوئے ہوں ۔ مسٹر جگدیپ دھنکڑ اپنے مستقبل کے تعلق سے فیصلے کرنے کا کامل اختیار رکھتے ہیں ۔ ان کی جانب سے پیش کی گئی وجوہات اپنی جگہ ضرور اہم ہیں تاہم سیاسی حلقوں میں اس استعفی کی وجہ سے نئی بحث شروع ہوگئی ہے ۔ یہ دعوی کیا جا رہا ہے کہ مسٹر دھنکڑ نے ایک جج کے خلاف اپوزیشن کی تحریک کو قبول کرلیا تھا جس کے مرکزی حکومت سے کوئی فون کال آئی اور پھر مسٹر دھنکڑ کے پاس حکومت سے ٹکراؤ کو ٹالنے کا کوئی راستہ نہیں رہ گیا تھا جس کی وجہ سے انہوں نے استعفی پیش کرنے کا نہ صرف اچانک فیصلہ کیا بلکہ استعفی پیش کر بھی دیا ۔ اس کے بعدکئی اور طرح کی قیاس آرائیاں بھی شروع ہوگئی ہیں اور اس ساری صورتحال کیلئے سیاسی فائدہ حاصل کرنے بی جے پی کے عزائم و منصوبوں کو وجہ قرار دیا جا رہا ہے ۔
یہ دعوی کیا جا رہا ہے کہ بی جے پی نے بہار اسمبلی انتخابات سے قبل ایک سیاسی ڈرامہ شروع کردیا ہے اور وہ اب موجودہ صورتحال میںایک نئے تقرر کے ذریعہ سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرسکتی ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ بہار میں سیاسی فائدہ حاصل کرنے کیلئے چیف منسٹر بہار نتیش کمار کو نائب صدر جمہوریہ ہند بنایا جاسکتا ہے ۔ بہار میں کسی نئے چہرے کو چیف منسٹر کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے ۔ اس کے علاوہ راجیہ سبھا کے نائب صدر نشین ہری ونش نارائن سنگھ کو بھی نائب صدر جمہوریہ بنائے جانے کا امکان ہے ۔ وہ بھی بہار سے تعلق رکھتے ہیں اور جنتادل یونائیٹیڈ سے وابستہ ہیں۔ بہار میںسیاسی فائدہ حاصل کرنے کیلئے ان امکانات پر غور کیا جارہا ہے ۔ ایک اور دعوی یہ بھی کیا جا رہا ہے کہ کانگریس کی صفوں میں توڑ پھوڑ اور انحراف کی حوصلہ افزائی کیلئے کانگریس کے رکن پارلیمنٹ تھرواننتاپورم ششی تھرور کے نام پر بھی اس عہدہ کیلئے غور کیا جاسکتا ہے ۔ ششی تھرور حالیہ عرصہ میںحکومت کی مدح سرائی اور خاص طور پر وزیر اعظم مودی کی شخصیت کی ستائش کرنے لگے ہیں۔ ان کے بیانات اور تقاریر کے ذریعہ بھی بی جے پی بہار میںفائدہ حاصل کرنا چاہتی ہے ۔ بہار کے علاوہ ششی تھرور کو اگر اس عہدہ کیلئے نامزد کیا جاتا ہے تو کیرالا میں بھی بی جے پی سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرسکتی ہے ۔ یہ ساری صورتحال اس جانب اشارہ کرتی ہے کہ نائب صدر جمہوریہ کا استعفی کی وجوہات وہ نہیں ہوسکتیں جو بظاہر بتائی جا رہی ہیں ۔
کہا جا رہا ہے کہ بی جے پی نے جگدیپ دھنکڑ کا استعفی قبول کرلئے جانے کے فوری بعد نئے چہرے کی تلاش شروع کردی ہے ۔ مختلف امکانات پر غور کیا جا رہا ہے اور تمام امکانات پر غور کرتے ہوئے محض اس بات پر توجہ مرکوز کی جا رہی ہے کہ بہار میں کس طرح سے سیاسی فائدہ حاصل کیا جائے ۔ بہار کے تعلق سے جس طرح اپوزیشن کی جانب سے حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور جارحانہ تیور اختیار کئے گئے ہیں اس کو دیکھتے ہوئے بی جے پی نے یہ سارا ڈرامہ تیار کیا ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ موجودہ صورتحال میں بی جے پی فیصلہ کیا کرتی ہے اور اس کا بہار میںکس حد تک سیاسی فائدہ اٹھانے میں کامیاب ہوتی ہے ۔ کامیاب ہوتی بھی ہے یا نہیں؟۔