نتن یا ہو کا احتساب، انسانی سماج کا اجتماعی فریضہ

   

اہل غزہ نے دنیا کو’’ ایمان باللہ ‘‘کا مفہوم عملاً سمجھایا
اسرائیل مقاصد میں ناکام اندرونی و بیرونی دباؤکا شکار

انسانی تمدن اور جنگل راج میں بنیادی فرق احتساب ہے۔ جنگل میں جسکی لاٹھی اُس کی بھینس کا قانون چلتا ہے ۔ طاقتور کا کوئی مواخذہ نہیں ہوتا اور کمزور کی کوئی شنوائی نہیں ہوتی ۔ لیکن انسانی معاشرہ میں ہر ایک کے حقوق کی پاسداری ہوتی ہے طاقتور کو کھلی چھوٹ نہیں دی جاتی کہ وہ اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے دوسروں کے حقوق کو تلف کردے اور انسانی اقدار کو پس پشت ڈالدے ۔ انسانی معاشرہ کی اساس اُس کے احتسابی نظام پر قائم ہے کہ کوئی قاعدہ و قانون سے بالا تر نہیں ۔ وقت کا فرعون بھی ہو تو اُس کو احتساب کی کرسی پر بٹھایا جائے گا ، اس سے باز پرس ہوگی اور جرم ثابت ہونے پر سزا کا وہ حقدار ہوگا ۔
اگر انسانی معاشرہ میں احتساب صرف کمزور کے لئے ہو اور طاقتور کے لئے کوئی پرسش نہ ہو تو وہ انسانی معاشرہ جانوروں سے بدتر ہو جاتا ہے ۔ یہی وجہ تھی کہ جب عہدرسالت میں کسی معزز خاتون سے جرم کا ارتکاب ہوا تو نبی اکرم ﷺ نے بعد ثبوت حد نافذ کرنے کا حکم فرمایا۔ جب سزا میں تخفیف کے لئے سفارش کی گئیں تو نبی اکرم ﷺ نے فی الفور خطبہ ارشاد فرمایا اور قانون کی بالا دستی کی اہمیت کو اُجاگر کرتے ہوئے فرمایا : کہ سابقہ اقوام کے ہلاک ہونے کی وجہ یہ تھی کہ جب کوئی معزز شخص چوری کرتا تو وہ اس پر حد جاری نہیں کرتے اور جب کوئی کمزور اس جرم کا ارتکاب کرتا تو اس پر قانون نافذ کیا جاتا ۔ بعد ازاں آپ ﷺنے ایسا جملہ ارشا د فرمایا جو قانون کی کتابوں میں سنہرے اُصول کا درجہ رکھتا ہے : ’’بخدا یہ غلطی بغرض محال ( میری لخت جگر ) فاطمہ بنت محمد سے سرزد ہوتی تو میں ضرور حد کو نافذ کرتا اور ہاتھ کاٹنے کا حکم دیتا۔(بخاری و مسلم بروایت سیدہ عائشہؓ) 
۷ اکتو بر ۲۰۲۳؁ء کو حماس کی جانب سے کی گئی کاروائی کو ڈھال بناکر اسرائیل نے غزہ پر حملہ کیا اور جو قتل عام کو روا رکھا جس کے نتیجے میں پچاس ہزار سے زائد لوگ شہید ہوگئے ، ایک لاکھ سے زائد لوگ زخمی ہوگئے۔ ہزاروں ابھی عمارتوں کے ملبے کے نیچے دفن ہیں جن کی ابھی شناخت نہیں ہوسکی۔ ہزاروں گرفتار ہو گئے ، لاکھوں لوگ نقل مکانی پر مجبور کئے گئے ، محفوظ علاقوں میں منتقل ہونے پر مجبور کیا گیا بعد ازاں انہی محفوظ علاقوں پر بے رحمانہ بم برسائے گئے ، معصوم بچوں کو راست نشانہ بنا کر ہلاک کیا گیا ۔ جب زخموں سے چور لوگ دواخانے پہنچے تو دواخانوں پر بم برسائے گئے۔ ڈاکٹرس ، نرسس اور طبی شعبہ سے تعلق رکھنے والے افراد کو ٹارگٹ کرکے قتل کیا گیا۔صحافیوں کو مارا گیا۔ اسکولس میں پناہ لئے عام شہریوں پر بم برسائے گئے۔ یونیورسٹیز، کالجس اسکولس لائبرریز ، میوزیم ، تجارتی مراکز ، پرنٹنگ ہاوزس کو نشانہ بنایا گیا اور کسی بھی شعبہ ہنر میں مہارت رکھنے والوں کو جان بوجھ کر مارا گیا ۔ یہ صرف اجتماعی قتل عام نہ تھا بلکہ تمام کلچر ثقافت، تہذیب اور اس کے اقدار اور روایات کو قتل کرنا تھا ۔ اس کے علاوہ جس بے رحمی سے امداد کو روکا گیا۔ پانی ، غذا ، لائٹ ، انٹرنیٹ ، ادویہ، طبی آلات اور انسان کی بنیادی ضرورتوں کے لئے استعمال ہونے والی اشیاء کو روک دیا گیا گویا کہ محصور اہل غزہ کو پنجرہ میں قید کر کے دو ہزار پاؤنڈ کے بم برسائے گئے اور ان کو مرنے کے لئے چھوڑ دیا گیا ۔ نہ پانی فراہم ، نہ غذا کی فراہمی اور نہ طبی علاج و معالجہ کی سہولت یعنی انسانیت گھٹ گھٹ کر مرجائے۔ پھر جو زندہ رہ گیا اُس نے یا تو اپنے مانباپ ، بھائی بہنوں کو کھویا یا اپنی بیوی بچوں کو زندہ در گور ہوتے ہوئے دیکھا۔ کتنے لوگ ہیں جنہوں نے اپنے قریبی و معصوم عزیز و اقارب کو دوا خانے میں تڑپتے ہوئے مرتے دیکھا ہوگا ۔ کتنے ایک معصوم بچے ہوں گے جنھوں نے اپنے مانباپ کو بھوکے پیاسے ، تڑپتے ہوئے اس جہاں سے رخصت ہوتے ہوئے دیکھا ، کتنے ایک زخمی بچے ہونگے جو اپنی بیماری کی شدت کی وجہ ایک ایک منٹ میں ہزار مرتبہ موت کی تمنا کررہے ہونگے ۔ کتنے ایک زندہ ہونگے جنگی زندگی کا ایک ایک پل کسی موت سے کم نہیں ہوگا ۔
دشمن نے حالیہ حملوں میں سینکڑوں اُن لوگوں کو شہید کر دیا جو ۱۰ مہینوں سے بھوک اور پیاس اور طبعی ضرورتوں کے لئے بلکتے رہے، اپنے قریبی رشتہ داروں کی جدائی کا غم سہتے رہے اور بڑی مشکل سے یہ کٹھن وقت گزار ا تھا جب جنگ بندی کا اعلان ہوا تو وہ خوش ہوئے اور جینے کی اُمنگ اُن میں پیدا ہوئی اور یہ اُمنگ بھی دشمن کو نہ بھائی اور ان مظلوموں کو بھی شہید کردیا گیا ۔ اہل غزہ‎ کی یہ دلخراش داستان ماڈرن دنیا کے ماتھے پر تاابد ایک بدنما داغ بنکر رہے گی جو آنے والوں کوان کی وحشیانہ اور درندہ ذھنیت کو ظاہر کرتے رہے گی۔
کیا نتن یا ہو جیسے انسانی قصاب کا احتساب انسانی معاشرہ کا فرض منصبی نہیں ہے ؟ امریکہ ، برطانیہ، کینیڈا، جرمنی نیز تمام یوروپی ممالک اس وحشیانہ قتل عام پر خاموش تماشہ بین بنے رہے اور رسمی طور پر ہمدردی کے کچھ بیانات دیتے رہے لیکن کسی میں روکنے کی جرأت و جسارت نہیں ہوئی۔ عرب ممالک سے شکوہ تو فضول ہے۔ اس کے برعکس اہل غزہ نے جس پامردی اور صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا اُن کا مقابلہ دنیا کی کسی قوم سے نہیں کیا جاسکتا۔ اگر امریکہ میں Toilet Paper کا Shortage ہو جائے تو امریکی عوام Panic ہو جاتی ہے اور سڑکوں پر آکر احتجاج شروع کردیتی ہے لیکن غزہ کی مائیں جو اپنے چار چار جوان بچوں کو شہد دیکھی تھیں اور ’’الحمدللہ‘‘ کی صدائیں بلند کرتی ہیں ۔ ایسا صبر اور یقین کوئی قوم پیش نہیں کر سکتی۔ ایک ماں اپنے شیر خوار اکلوتے بیٹے کو اپنے ہاتھوں سے آسمان کی طرف اٹھائے ہوئے بادید ۂ نم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ سے صبر عطا کرنے کی دعاء کرتی ہے ۔ کیا کوئی قوم اللہ تعالیٰ سے ایسی والہانہ محبت کا اس دور میں کوئی نمونہ پیش کر سکتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہزاروں رحمتیں نازل فرمائے ہمارے آقا محمد عربی ﷺ پر جنھوں نے اپنی اُمت کے دل میں محبت الٰہی اور یقین کا مل کی ایسی روشنی پیدا کی کہ چودہ صدیاں گزرنے کے باوجود اس کی چمک دمک میںفرق نہیں آیا ۔
اپنی مِلّت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رُسولِ ہاشمی
اسقدر قتل عام کے باوجود نتن یاہو کو اپنے مقاصد میں کچھ کامیابی نہیں ملی۔ وہ نہ اپنے قیدیوں کو چھڑا سکا اور نہ حماس کو ختم کرسکا بلکہ حماس ایک نئی طاقت بنکر اُبھرا ہے اور حماس نے ڈسمبر ۲۰۲۳؁ء میں جنگ بندی کے لئے جو شرائط رکھے تھے بعینہ اسی ڈیل کو قبول کرنے پر نتن یاہو کو مجبور و رسوا ہونا پڑا۔ ایک طرف عالمی دباؤ ، دوسری طرف اندرونی خلفشار اسرائیل میں نتن یا ہو کے لئے وبال جان بن جائیگا اور ہر آنے والا دن گزرے دن سے زیادہ رسوا کن ثابت ہوگا اور ضرور مسلمان اس قصاب اور اس کے حواریوں کے عبرتناک انجام کو دیکھیں گے۔ اور بشارتِ خداوندی صادق آئیگی۔ ’’تم اُن سے لڑائی کرو اللہ تعالیٰ اُن کو تمہارے ہاتھوں سے عذاب دے گا اور اُن کو رسوا کریگا اور اُن پر تمہاری مدد کرے گا اور مومنین کے سینوں کو ٹھنڈا کرے گا ‘‘۔
(سورۃ التوبہ،۱۴)