مولانا دبیراحمد قاسمی
صحبتے بااولیاء
لیکن یہ تو ان زمانوں کاذکر ہے جن کے خیر اور تمام زمانوں سے بہتر ہونے کی خبر خود رسول للہ ﷺ نے دی ہے ،ظاہر ہے کہ قیامت تک کے زمانوں تک ان کاامتداد نہیں ہوسکتا تھا۔چنانچہ حضرات صحابہ وتابعین اور اتباع تابعین کے بعد انسانوں کی اخلاقی وعملی تربیت اور روحانی اصلاح کا کام بزرگان دین اور روحانی پیشواوں نے انجام دیا۔انھوں نے انسانوں کو محبت وانسانیت اور خداترسی کا درس دیا،گم کردہ راہوں کو منزل سے آشنا کیا۔وہ دلوں کے چاک کو سینے اور بکھرے انسانوں کو ایک رشتہ میں پرونے کا کام کرتے رہے۔ان کے وجود سے یہ دنیاکبھی خالی نہیں رہی۔ان کی سیرت کا اعجاز اور ان کے اخلاق کی پاکیزگی ہمیشہ غفلت شعار انسانوں کے لیے مہمیز کا کام کرتی رہی۔
ان کی صحبت وہم نشینی کے بغیر نیکیوں کی طرف دل کارجحان و میلان نہیں ہوسکتا اور نہ گناہوں کی نفرت دل میں پیداہوسکتی ہے؛ اس لیے قرآنِ مجید نے اہلِ ایمان کو مخاطب کرکے کہا: ” یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّہَ وَکُونُواْ مَعَ الصَّادِقِینَ“ اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور ایسے لوگوں کی معیت وصحبت اختیار کرو جو اپنے اقوال وافعال اور ایمان میں سچے ہیں ۔
دوسری جگہ ارشاد ہے: ”وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِینَ یَدْعُونَ رَبَّہُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِیِّ یُرِیدُونَ وَجْہَہُ“ اے نبی اپنے آپ کو ان لوگوں کے ساتھ جمائے رکھیے جوشب وروز خداکی طاعت وعبادت میں مصروف رہتے ہیں ،جو فقط خداکی خوشنودی چاہتے ہیں اور اس کی مرضی پر رضامند رہتے ہیں۔مولاناروم رحمۃ اللہ علیہ نے صالحین کی صحبت کے اثرات کو اس طرح بیان فرمایاہے :
یک زمانہ صحبتے با اولیاء
بہتر از صدسالہ طاعتِ بے ریا
ہرکہ خواہی ہم نشینی باخدا
او نشینید صحبتے با اولیاء
اولیاء کرام کی صحبت میں گذارے ہوئے لمحات سوسالہ بے ریا عبادت سے بھی بڑھ کر ہیں ۔جو اللہ تعالی کی قربت کی تمنااور آرزورکھتاہے اسے چاہیے کہ صالحین کی صحبت اختیار کرے ۔بعض عارفین کاقول ہے:
”کونوا مع اللّٰہ فان لم تقدروا فکونو مع من یکون مع اللّٰہ“
ترجمہ:اللہ کی معیت اختیار کرواگراس کی قدرت نہ ہو تو اہل اللہ کی صحبت اختیار کرو۔
فتنوں کے دورمیں
موجودہ دور فتنوں کی طغیانی کاہے ،ذرائع ابلاغ کی وسعت،سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقیات، بے حیائیوں کے فروغ اور پرنٹ میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا کے ذریعہ پھیلائے جانے والے فحش لٹریچر نے اخلاقی طور پر معاشرے کو تباہی کے دہانے پر کھڑاکردیا ہے،ایسے وقت میں اس کی اشد ضرورت ہے کہ اخلاقی اور روحانی قدروں کو فروغ دیا جائے۔اخلاقی انحطاط کا سدباب کیا جائے، بری صحبت اوربرے ماحول سے خود بھی بچاجائے اور دوسروں کو بھی اس سے بچنے کی تلقین کی جائے۔ معاشرے کے فساد اور بگاڑ کو دورکرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کیے جائیں۔اس کے بغیر نہ معاشرہ کی اصلاح کا کام شرمندئہ تکمیل ہوسکے گا اور نہ ہم ایک ایسی نسل تیار کرسکیں گے جو عہدِ حاضر کے چیلنجز کا مقابلہ کر سکے اور علمی اور عملی میدانوں میں کوئی نمایاں اور قابلِ ذکر خدمت انجام دے سکے۔