مولانا محمد نذیر خان
واقعہ معراج کائنات کا ایک منفرد و بے مثال واقعہ ہے۔ اس طرح کا واقعہ نہ کبھی ہوا تھا نہ کبھی ہوگا۔ قادر مطلق سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے محبوب بندہ ـ‘رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کو رات کے مختصر سے حصہ میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ، ساتوں آسمان، جنت و دوزخ وغیرہ کی سیر کرائی اور اپنے دیدار سے مشرف فرمایا۔ واقعہ معراج اپنے اندر کئی خصوصیات رکھتا ہے‘ اور ہمارے لئے اس واقعہ میں ہمہ اقسام پہلو ملتے ہیں۔ ذیل میں واقعہ معراج سے حاصل ہونے والے اعتقادی پہلوئوں میں سے چند کو واضح کیا جاتا ہے۔
سید المرسلین ﷺسید الملائکہ سے افضل ہیں: روایت میں آتا ہے کہ شب معراج حضرت جبرئیل، حضرت اسرافیل، حضرت میکائیل علیہم السلام آپ ﷺکی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور حضرت جبرئیل علیہ السلام نے براق کی لگام تھام لی، حضرت میکائیل نے رکاب پکڑا اور حضرت اسرافیل حاشیہ بردار رہے۔ اس روایت سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ سید الملائکہ سے سید المرسلین ﷺ کا مرتبہ اعلیٰ و افضل ہے۔چنانچہ آپ ﷺ نے حدیث شریف میں حضرت جبرائیل کو آسمان میں اپنا وزیر قرار دیا:ترجمہ: حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ہرنبی کے لئے دو وزیر آسمان والوں میں سے اور دو وزیر زمین والوں میں سے ہوتے ہیں۔ سو آسمان والوں میں سے میرے دو وزیر، جبرئیل و میکائیل ہیں اور زمین والوں میں سے میرے دو وزیر ابوبکر اور عمر ہیں۔(رواہ الترمذی،کتاب المناقب)
جانور بھی آپ ﷺکے مرتبہ کو جانتے ہیں: واقعہ معراج میں مذکور ہے کہ جب سفر معراج کیلئے براق کو لایا گیا اور آپ ﷺاس پر سوار ہوئے تو وہ ناز و طرب اور افتخار کے باعث شوخی کرنے لگا۔ (مدارج النبوۃ، صفحہ ۲۵۰)۔ اس بات سے یہ عقیدہ معلوم ہوتا ہے کہ جانور بھی آپ ﷺکو جانتے تھے کہ آپ ﷺاللہ کے رسول ہیں۔ چنانچہ حدیث شریف میں آتا ہے :حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے آپ فرماتی ہیں کہ حضور رسول اللہ ﷺ مہاجرین اور انصار کی ایک جماعت میں تشریف فرما تھے کہ ایک اونٹ آیا اور آپ ﷺ کو سجدہ کیا‘ آپ ﷺ کے صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ آپ کو چوپائے اور درخت سجدہ کرتے ہیں ہم (انسان ) زیادہ حقدار ہیں کہ آپکو سجدہ کریں تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم اپنے رب کی عبادت کرو اپنے (مؤمن ) بھائیوں کے ساتھ عزت سے پیش آؤ اگر میں کسی کو کسی کے لئے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو بالضرورعورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے‘(شوہر کا مرتبہ تو یہ ہیکہ ) اگر وہ اسکو حکم دے کہ زرد پہاڑ سے (پتھر ) کالے پہاڑ پر لے جائے اور کالے پہاڑ سے سفید پہاڑ پر تو اسکو چاہیئے کہ وہ اس حکم کو بجالائے۔( مسند أحمد )
انبیاء اپنی مزارات میں زندہ ہیں: سفر معراج کے مراحل میں آپ ﷺکا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قبر انور کے قریب سے گزر ہوا تو آپ ﷺنے ملاحظہ فرمایا کہ حضرت موسیٰ علیہ اسلام اپنے قبر میں نماز پڑھ رہے ہیں۔ (مدارج النبوۃ )۔ اس روایت سے حیات الانبیاء کا عقیدہ ثابت ہوتا ہے کہ انبیاء کرام پر چند لمحوں کیلئے موت آتی ہے پھر اس کے بعد وہ باحیات ہوتے ہیں۔ اس عقیدہ کا ثبوت حضور اکرم ﷺ کے اس فرمان مبارک سے بھی واضح ہوتا ہےکہ آپ ﷺنے فرمایااﷲ تعالیٰ نے زمین پر انبیاء کے جسموں کوکھانا حرام کردیا ہے۔(رواہ ابن ماجہ،کتاب ما جاء فی الجنائز )