وزیر اعظم نریندر مودی نے چین کے ساتھ کشیدگی کے مسئلہ پر جمعہ کو کل جماعتی اجلاس طلب کیا ہے ۔ اس اجلاس میں چین کے ساتھ کشیدگی اور سرحد پر جھڑپوں کے مسئلہ پر تبادلہ خیال ہوگا اور تمام جماعتوں کو صورتحال سے واقف کروایا جائیگا ۔ یہ اجلاس وزیر اعظم نے تاخیر سے طلب کیا ہے ۔ یہ بات سارے ملک پر عیاں ہے کہ چین کی سرحد پر کشیدگی ابھی نہیں ہوئی ہے بلکہ گذشتہ دو ہفتوں سے یہ سلسلہ چل رہا تھا ۔ چین نے سرحدی علاقوں میں تعمیرات انجام دی ہیں۔ ایک رن وے تک تعمیر کرلیا ہے ۔ ہندوستانی افواج کی نقل و حرکت پر چین کی جانب سے رکاوٹیں پیدا کی جا رہی تھیں۔ وہاں ہندوستان کے مختلف پراجیکٹس پر اعتراض کیا جا رہا تھا اور صورتحال ٹھیک ٹھاک نہیں تھی ۔ کچھ تصاویر سٹیلائیٹ سے سامنے آئی تھیں جن میں چین کی جانب سے تعمیرات کا انکشاف ہوا تھا ۔ یہ سارا کچھ میڈیا میں بھی آیا اس کے باوجود حکومت نے خاموشی اختیار کی ہوئی تھی اور کوئی بات ملک کے سامنے نہیں بتائی گئی تھی ۔ سرکاری پہلو کو عوام کے سامنے نہیںرکھا گیا تھا ۔ صرف یہ بیان دیا جا رہا تھا کہ سرحد پر سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے ۔ چین نے کچھ فاصلہ تک پسپائی بھی اختیار کرلی ہے اور اس کے ساتھ بات چیت کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے ۔ جو مسئلہ ہے اسے جلد حل کرلیا جائیگا ۔ جب سب کچھ ٹھیک ٹھاک تھا تو پھر اچانک ہمارے 20 سپاہی کس طرح سے شہید ہوگئے ۔ اس کا حکومت کو جواب دینا چاہئے ۔ اب وزیر اعظم نے جو اجلاس طلب بھی کیا ہے وہ بھی ان تنقیدوں کے بعد کیا ہے کہ حکومت کو اس ساری صورتحال پر جواب دینا چاہئے کہ کس طرح سے چین کی افواج ہماری سرحدات میں گھس آئی ہیں۔ اب وزیر اعظم یہ بیان دے رہے ہیںکہ ہندوستان امن تو چاہتا ہے لیکن اگر اسے اکسایا گیا تو وہ منہ توڑ جواب بھی دینے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ یہ سارا کچھ بیان بازیوں میںہو رہا ہے اور حقیقت میں ایسا کچھ کیا نہیں جارہا ہے ۔ چین کا جہاں تک معاملہ ہے اس کی تاریخ کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ چین کے ساتھ نرمی کا رویہ اختیار کیا جاتا رہا تو اس کے حوصلے اور عزائم مزید بلند ہونگے ۔
وزیر اعظم نے جو کل جماعتی اجلاس طلب کیا گیا ہے اس کی اپنی ایک اہمیت ہے کیونکہ حکومت نے پہلی مرتبہ اپوزیشن کے وجود کو تسلیم کیا ہے اور خود وزیر اعظم نے یہ اجلاس طلب کیا ہے ۔ اس سے بھی سرحد پر صورتحال کی کشیدگی کا اندازہ ہوتا ہے ۔ اس اجلاس میں صرف ضابطہ کی کارروائی نہیںہونی چاہئے ۔ صورتحال پر غور کیا اور اپوزیشن کو مطمئن کرنے کی کوشش کرکے حکومت بری الذمہ ہوجائے ۔ حکومت کو اجلاس میں تمام اپوزیشن جماعتوں کو اعتماد میں لیتے ہوئے چین کو ایک سخت پیام بلکہ وارننگ دینے کی ضرورت ہے ۔ ہندوستان میں سیاسی جماعتوں میں اختلافات تو ہوسکتے ہیں اور یہ بہت شدید بھی ہوسکتے ہیں لیکن سرحدات کی حفاظت اور ان کی سلامتی کے مسئلہ پر نہ کوئی سیاست ہوسکتی ہے اور نہ اختلاف ہوسکتا ہے ۔ اس مسئلہ پر سارے ہندوستانی عوام ایک ہیں اور چاہتے ہیں کہ چین کو اس کی جارحانہ روش اور بلا اشتعال کارروائیوں کا منہ توڑ جواب دیا جائے ۔ یہ پیام چین کو سخت انداز میں آنکھیں لال کرتے ہوئے دینے کی ضرورت ہے ۔ چین کے جو عزائم ہیں وہ بھی اب واضح ہونے لگے ہیں۔ چین لداخ کو اپنا علاقہ قرار دینے سے باز نہیں آ رہا ہے حالانکہ یہ سارا علاقہ ہندوستان کا ہے اور لائین آف کنٹرول کے اندر ہے ۔ اس کے باوجود چین وہاں اپنی ہٹ دھرمی جاری رکھے ہوئے ہے اور اس سلسلہ کو روکنا بہت ضروری ہے ۔ ایک بالکل واضح اور انتہائی سخت موقف اور وارننگ کے ذریعہ چین کو روکا جاسکتا ہے ۔
جو کل جماعتی اجلاس طلب کیا گیا ہے اس کو دیر سے کیا گیا درست اقدام تو کہا جاسکتا ہے لیکن اسے ضائع نہیں کیا جانا چاہئے ۔ اس کے ذریعہ چین پر واضح کردینا چاہئے کہ ہم امن کے خواہشمند ہیںاور امن کیلئے صبر و تحمل سے کام کرتے ہیں لیکن اگر ہماری سرحدات پر حملے ہوتے ہیں اور ہمارے فوجیوںکو شہید کیا جاتا ہے تو ہم اسے برداشت نہیں کرینگے اور ہر ہندوستانی اس مسئلہ پر چین کے سامنے ٹہرنے کیلئے تیار ہے ۔ ہماری فوج بھی اتنی طاقتور اور دلیر ہے کہ چین کی اس ہٹ دھرمی کا منہ توڑ جواب دے سکے اور اسے ناکوں چنے چبوا سکے ۔ سارا ہندوستان ہماری فوج کے ساتھ ہے اور حکومت کو اس حقیقت کو ذہن میں رکھتے ہوئے ایک سخت گیر موقف اختیار کرتے ہوئے چین کو خبردار کرنے کی ضرورت ہے ۔ تب بھی اگر چین اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو پھر آئندہ کے لائحہ عمل کا تعین کرنے میں تاخیر نہیں کی جانی چاہئے ۔
