وقف بورڈ ، ملی بے حسی کی بھینٹ عہدیداروں کا انتخاب ، شرعی معیاراور مطلوبہ اہلیت

   

فقیہ الاسلام حضرت مفتی ابراہیم خلیل الہاشمی کا انوکھا استدلال

دشمن کیوں سرحد پہ ہم ڈھونڈا کریں
گھر لُوٹتے جب ہوں محافظ آشیاں
وقف ترمیمی بل کو بالآخرجے پی سی نے منظوری دے دی ، اپوزیشن کی ۴۴ شقوں پر مشتمل تجاویز کو بالکلیہ مسترد کر دیا البتہ حکومت کی جانب سے پیش کردہ ۱۴ ترامیم کو قبول کر لیا گیا تا ہم اپوزیشن کی کاوشیں قابل ستائش رہیں جنہوں نے اس بل کو روکنے اور اس کے نقصانات کو کم کرنے کے لئے بڑی محنت و کاوش سے تجاویز مرتب کیں اور جمہوری ڈھانچے میں اسکو روبعمل لانے کیلئے ممکنہ جدوجہد کی لیکن وہی ہوا جسکی توقع تھی یعنی جے پی سی کو یہ بل محض رسمی طور پر بھیجا گیا تاکہ اپوزیشن کے دباؤ کو کم کیا جا سکے ، حکومت کی نئی کچھ ترامیم کے ساتھ یہ بل منظور کرلیاگیا اور بہت ممکن ہے کہ یہ بل ایوان میں منظور ہو جائے کیونکہ لوک سبھا اور راجیہ سبھا دونوں ایوانوں میں حکومت اور حلیف جماعتوں کو عددی برتری حاصل ہے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہندوستان کو آزاد ہوئے اسی سال ہونے جارہے ہیں ، ان آٹھ دہوں میں مسلم وقف بورڈ کو جو نقصان پہنچا ہے اس کے ذمہ دار کون ہیں؟ وقف بورڈ ریاستی حکومتوں کے تحت ہے اور اس میں مسلم نمائندگی بھی بھر پور رہی ہے نیز عہدیدار مسلمان ہی رہے ۔ وقف بورڈ کی تباہی و بربادی کے ہم مسلمان ہی ذمہ دار ہیں۔ اگر یہ بل منظور نہ بھی ہو تو کیا ریاستی حکومتیں مسلمانوں کی اوقافی جائیدادوں کے تحفظ اور ترقی میں سنجیدہ ہیں ؟ کیا مسلمانوں نے اس ضمن میں کبھی ذمہ داروں کا احتساب کیا ہے ؟ مسلم وقف بورڈ میں ضمیر فروشی کے جو مظاہرے نظر آتے ہیں وہ ہندو وقف بورڈ میں کیوں نظر نہیں آتے؟ ہندو وقف بورڈ مسلمان وقف بورڈ سے زیادہ محفوظ اور زیادہ مؤثر کیوں ہے ؟
ہندوستان میں بڑے پیمانے پر وقف ترمیمی بل سے متعلق مسلمانوں میں شعور کو بحال کرنے کی کاوشیں کی گئیں ، دینی، ملی سماجی سیاسی تمام تنظیمیں سرگرم نظر آئیں لیکن سوال یہ ہے کہ متذکرہ تنظیموں نے ریاستی حکومتوں کے تحت قائم وقف بورڈ کی اصلاحات کے لئے اب تک کیا تجاویز حکومت کو پیش کی ہیں ؟
واضح رہے کہ تعمیر کعبہ کے بعد قریش مکہ نے حجر اسود کو اُس کی جگہ رکھنے کے مسئلہ پر تنازعہ کی یکسوئی کے لئے نبی اکرم ﷺ کو بحیثیت ’’حَکَم‘‘ قبول اس لئے کیا تھا کہ آپ ﷺ میں ’’صداقت ‘‘ اور ’’امانت‘‘ جیسی قائدانہ صفات بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں ۔ یہ دو صفات بڑی جامع ہیں یعنی ان صفات سے متصف رہنا نہ کبھی اپنے قوم کو دھوکہ دیگا نہ خیانت کریگا بلکہ ان کو متحد رکھے گا، ہر ایک کی عظمت و احترام کا پاس ولحاظ رکھے گا اور اپنی مفوضہ ذمہ داری کو بہ حسن و خوبی انجام دیگا نیز اپنی قوم کی اُمنگوںپر کھرا اُتریگا ، کسی مرحلہ پر ان کو مایوس نہیں کریگااور جو بھی اسباب و و سائل فراہم ہیں ان کو اپنی دور اندیشی سے روبعمل لاتے ہوئے، نہایت حکمت عملی سے قوم کے مقاصد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوگا اور اسکی پیہم کوشش اور مؤثر حکمت عملی کی بناء قوم وملت ثمرآور نتائج سے فیضیاب ہوتی رہے گی۔ اسی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے حکیم الامت علامہ اقبالؔؒ نے معنی خیز شعر کہا ہے ؎
’’سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا
لیا جائیگا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا ‘‘
۱۹۹۵؁ء میں احقر جامعہ نظامیہ میں جماعت عالم میں زیر تعلیم تھا۔ اسوقت حضرت سید علی اکبر نظام الدین حسینی صابری سجادہ نشین حضرت شاہ خاموشؒ کا انتخاب بحیثیت امیر جامعہ اور مرحوم سید احمد علی ڈپٹی کلکٹر کا بحیثیت ’’معتمد جامعہ ‘‘ انتخاب عمل میں آیا تھا۔ ان کے خیرمقدم میں جامعہ نظامیہ کی وسیع و عریض مسجد میں ایک عظیم الشان جلسہ منعقد ہوا، شیوخ کرام کے پُرنور چہرے ، باوقار شملے اور قدآور شخصیتیں اسٹیج کی رونق کو دوبالا کررہی تھیں۔ حضرت مولانا مفتی ابراہیم خلیل الہاشمی سابقہ شیخ الفقہ جامعہ نظامیہ نے شاہانہ رعب و جلال کے ساتھ ایک فصیح و بلیغ خطاب فرمایا اورعہدیداروں کے امتیازی صفات اور عہدیداروں کے مابین ذہنی اشتراک پر آیاتِ قرآنی سے انوکھا استدلال کیا۔ دوران خطاب آپ نے فرمایا کہ جب حضرت موسی علیہ السلام مدین پہنچے تو آپ نے حضرت شعیب علیہ السلام کی صاحبزادیوں کے ساتھ قوم کے امتیازی سلوک کو دیکھا‎ توفی الفور ان کی مدد کیلئے آگے بڑھے اور درکار تعاون پیش کیا جس کی بناء ایک صاحبزادی نے والد گرامی سے حضرت موسی علیہ السلام کو ملازمت کا آفر دینے کی تجویز دی اور آپ کے دو اہم صفات کا ذکر کیا : ’’ملازمت کی پیشکشی کے لئے سب سے موزوں آپ ہیں جو کہ قوی اور امین ہیں‘‘ (سورۃ القصص ۲۶)یعنی آپ میں دو ایسی صفات ہیں جو فرائض منصبی کی انجام دہی کے لئے بنیادی اُصول کا درجہ رکھتی ہیں اور وہ قوت و امانت ہے ۔ یعنی عہدیدار کا ذہنی ، جسمانی اور اخلاقی اعتبار سے Fit ہونا Exicute کی صلاحیت کا حامل ہونا ، نازک وقت میں پیچیدہ مسائل کا فیصلہ کرنے کا حوصلہ ہونا، راہ حق میں آنے والی رکاوٹوں کو دور کرنا ، شرپسندوں سے نمٹنے کی ہمت ہونا ، صفت ’’قوی‘‘ میں شامل ہے نیز امانت و دیانت ایسی صفات ہیں کہ جس سے قوم وملت کا اعتماد اور Trust قائم رہتا ہے ۔
حضرت فقیہ الاسلام شیخ الفقہ علیہ الرحمہ نے قرآن مجید میں ذکر کردہ حضرت یوسف علیہ السلام کے قول کا حوالہ دیا: ’’ حضرت یوسف نے فرمایا : آپ مجھے زمین کے خزانوں پر نگر ان بنا دیجئے کیونکہ میں حفاظت کرنے والا اور وافر علم رکھتا ہوں‘‘۔ (سورۂ یوسف ۔۵۵) آپ نے متذکرہ آیت قرآنی سے استدلال کیا کہ عہدیداروں میں ادارہ کی جائیدادوں کا تحفظ کرنے ، اُن کو فروغ دینے، اُن سے آمدنی کو مستحکم کرنے کی صلاحیت کا ہونا ضروری ہے مزید برآں عہدیداروں کے مابین تال میل اور ذہنی اشتراک کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے حضرت موسی علیہ السلام کی حضرت ھارونؑ کے حق میں کی گئی دعاء سے استدلال کیا : پروردگار ! میرے معاملہ میں ہارون کو میرے موافق بنا تا کہ ہم تیری خوب تسبیح کریں اور تیرا کثرت سے ذکر کریں ‘‘ ( سورۃ طہٰ ۳۲،۳۳)  یعنی عہدیداروں میں اخلاص ، ملی درد، خوفِ خدا ہو تو Vision کی تکمیل کےلئے باہمی تال میل کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ اس سے ادارہ کی ترقی اور growth میں خاطر خواہ اضافہ ہوتا ہے۔
افسوس کہ مسلم وقف بورڈ ملی بے حسی اور ضمیر فروشی کا شکار رہا ، ہمارے بزرگوں نے جن اعلیٰ مقاصد کے لئے اپنی گرانقدر جائیدادوں کو وقف کیا تھا کاش ان کی حفاظت کی جاتی اور ان کو ملت کی فلاح و بہبود کے صحیح مصرف میں استعمال کیا جاتا اور نوجوانوں اور نونہالوں کی تعلیمی و معاشی استحکام و ترقی کے لئے منصوبے تیار ہوتے اور اُن کو Implement کیا جاتا تو کیا ہی اچھا ہوتا ۔
بے حسی کو عروج ہم نے دیا
ہر طرف جنگ بس مفاد کی ہے