ٹرمپ اور یوروپ میں اتھل پتھل

   

صداقتوں کا ابھی امتحان رہنے دے
ہمارے پاس کوئی آسمان رہنے دے
اپنی دوسری معیاد میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ ساری دنیا میں اتھل پتھل کی وجہ بن رہے ہیں اور جارحانہ تیور کے ساتھ ایسے فیصلے کر رہے ہیں جن کے نتیجہ میںخود امریکہ کے حلیف ممالک کیلئے مشکلات میں اضافہ ہوسکتا ہے ۔ ٹرمپ ویسے تو کئی ایسے فیصلے کرنے کا منصوبہ رکھتے ہیںجن کے نتیجہ میں ساری دنیا پرا ثرات مرتب ہوسکتے ہیں تاہم فی الحال یوروپ میں اتھل پتھل زیادہ ہونے لگی ہے ۔ جس وقت وائیٹ ہاوز کے اوول آفس میں ٹرمپ اور یوکرین کے صدر زیلسنکی کے درمیان بحث و تکرار ہوئی تھی اس کے بعد سے سارے یوروپ میں چہ میگوئیاں شروع ہوگئی ہیں۔ ٹرمپ نے اب انتباہ دیا ہے کہ وہ یوروپ کیلئے بھی اپنی امداد بند کرسکتے ہیں ۔ ٹرمپ اپنی جارحیت کے ساتھ یوکرین کو روس کے ساتھ جنگ ختم کرنے کیلئے مجبور کرنا چاہتے تھے ۔ زیلنسکی نے ان کے احکام کو قبول کرنے سے انکار کیا تھا اور پھر اوول آفس میں دونوں ہی صدور کے مابین تکرار ہوگئی ۔ یہ ایسا واقعہ تھا جو شائد ہی پہلے کبھی پیش آیا ہو۔ دو ممالک کے صدور عموما خوشگوار انداز میں ملاقات کرتے ہیں اور بات چیت سے عدم اتفاق کے باوجود بحث و تکرار سے گریز کرتے ہیں تاہم اوول آفس میں ٹرمپ اور زیلنسکی کے مابین تکرار نے واضح کردیا کہ امریکہ اپنے انداز میں ہی ساری دنیا کے فیصلے کرنا چاہتا ہے ۔ ٹرمپ جس طرح سے یوکرین کو دباناچاہتے تھے وہ ممکن نہیں ہوسکا ہے اور اس کے نتیجہ میں امریکہ اور یوکرین کے مابین معدنیات سے متعلق بھی کوئی سمجھوتہ نہیں ہونے پایا ہے ۔ اس کے دوسرے ہی دن لندن میں وزیر اعظم برطانیہ اسٹارمر کی جانب سے یوروپی قائدین کی چوٹی کانفرنس منعقد کی گئی اور انہوں نے یوکرین کی تائید کا اعلان کیا ۔ حالانکہ یوروپی ممالک نے یہ بھی کہا کہ وہ ٹرمپ کی جنگ بندی کی تجویز پر بھی بات کرنا چاہتے ہیں اور اسے یقینی بنانا چاہتے ہیں لیکن زیلنسکی کے ساتھ جس طرح کا برتاؤ اوول آفس میں کیا گیا تھا اس کو پسند نہیں کیا گیا ۔ ٹرمپ ان ممالک کے رویہ سے بھی خوش نہیں ہیں جنہوں نے لندن کی چوٹی کانفرنس میںشرکت کی تھی ۔اس کانفرنس پر بھی امریکہ برہم ہے ۔
صدر ڈونالڈ ٹرمپ اب وہ یوروپی ممالک کیلئے بھی اپنی سکیوریٹی ضمانت اور امداد کو ختم کرنے پر سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ یوروپی ممالک نے اب یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ اپنی سلامتی اور تحفظ کیلئے یوروپی ممالک کو ابھی سے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے اور امریکہ پر زیادہ انحصار سے گریز کرنا چاہئے ۔ کچھ گوشوں کا یہ بھی تاثر ہے کہ اوول آفس میں جو بحث و تکرار ہوئی ہے وہ برسر موقع پیدا ہوئے حالات کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ صدر امریکہ نے عمدا ایسا ماحول تیار کیا تھا تاکہ انہیں آئندہ اپنے منصوبوںکو عملی جامہ پہنانے کی کوئی صورت نکل آئے ۔ یوروپ میں ٹرمپ کے رویہ کی وجہ سے تشویش کی ایک لہر دوڑ گئی ہے اور اس میں وزیر اعظم برطانیہ اسٹارمر ایک برج کا کام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ یوروپ اور امریکہ کے مابین اختلافات کو کم سے کم کرنے اور یوکرین کو صدر ٹرمپ کے ساتھ بات چیت کی میز پر دوبارہ لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کاکہنا تھا کہ روس کے ساتھ جنگ بندی کی تجویز کو عملی شکل دیتے ہوئے دوبارہ ٹرمپ سے بات چیت کی جاسکتی ہے جبکہ ٹرمپ نے یہ واضح کردیا ہے کہ وہ زیلنسکی کے رویہ کو زیادہ دیر قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں اور امریکہ کسی بھی لمحہ روس کے ساتھ جنگ میں یوکرین کا ساتھ چھوڑ سکتا ہے ۔ جو امداد یوکرین کو امریکہ کی جانب سے دی جا رہی ہے اس کا سلسلہ کسی بھی وقت روکا جاسکتا ہے اور پھر روس کے ساتھ زیادہ دیر مقابلہ کرنا یوکرین یا زیلنسکی کئے ممکن نہیں رہ جائے گا ۔
یوروپی ممالک امریکی صدر کے رویہ سے پریشان ہو اٹھے ہیں اور انہیں یوکرین سے زیادہ اپنی سلامتی اور حفاظت کی فکر لاحق ہوگئی ہے ۔ وہ کھلے عام اپنی تشویش کا اظہار کرنے سے گریز کر رہے ہیں تاہم اپنے مستقبل کے تعلق سے باہمی طور پر ضرور تبادلہ خیال کیا جا رہا ہے ۔ کچھ ممالک اور قائدین کا کہنا ہے کہ مستقبل میں اپنے تحفظ کیلئے اقدامات ابھی سے شروع کرنے کے ساتھ ساتھ امریکہ پر زور دیا جانا چاہئے کہ وہ یوروپ سے فوری طور پر بری الذمہ ہونے سے گریز کرے۔ بحیثیت مجموعی یوروپ میں اتھل پتھل شروع ہوگئی ہے اور دیھنا یہ ہے کہ ٹرمپ کے تیور سے یوروپ میں آئندہ دنوں میں کیا حالات پیدا ہوتے ہیں۔