ٹرمپ کی شرحیں ‘ عوام سے وصولی

   

انہیں مہرباں سمجھ لیں مجھے کیا غرض پڑی ہے
وہ کرم کا ہاتھ ہی کیا جو عوام تک نہ پہنچے
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے عائد کی جانے والی شرحوں کا ہندوستانی مارکٹ اور معیشت پر انتہائی منفی اثر ہونا شروع ہوگیا ہے ۔ جہاں ٹرمپ نے ہندوستان پر رعایتی ہی صحیح 26 فیصد شرحیں عائد کردی ہیں وہیں کہا جا رہا ہے کہ ہندوستان نے امریکہ پر عائد کی جانے والی شرحوں میں نرمی دینے کا بھی تیقن دیا ہے ۔ اس کے اثرات ہندوستانی معیشت پر مرتب ہونے لگے ہیں اور حکومت بین الاقوامی سطح پر موثر سفارتی جدوجہد کرنے اور امریکی انتظامیہ کے دباؤ کو مسترد کرنے کی بجائے ملک کے عوام پر بوجھ عائد کرنے لگی ہے ۔ حکومت کی جانب سے بین الاقوامی سطح پر تو کسی طرح کا سخت گیر موقف اختیار کرنے سے گریز کیا گیا ہے تاہم اب اندرون ملک عوام کی جیب پر ڈاکہ شروع ہوگیا ہے ۔ آج ایک ہی دن میں حکومت نے پٹرول اورڈیزل پر اکسائزڈیوٹی میںدو روپئے فی لیٹر کا اضافہ کردیا ہے اس کے علاوہ پکوان گیس سلینڈر کی قیمتوںپر بھی فی سلینڈر 50 روپئے کا اضافہ کردیا گیا ہے ۔ یہ اضافہ سبسڈی پر فراہم کئے جانے والے سلینڈرس پر بھی کیا گیا ہے ۔ اس طرح جو معاشی نقصان امریکہ اور ٹرمپ کی شرحوں کی وجہ سے ہونے کے امکانات ہیں اس کو ملک کے عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالتے ہوئے پورا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ پٹرول و ڈیزل پر اکسائز ڈیوٹی میںاضافہ کیا گیا ہے اور پکوان گیس سلینڈر کی قیمت میںاضافہ کیا گیا ہے جو ایسی صورتحال میں کیا گیا ہے جبکہ بین الاقوامی سطح پر خام تیل کی قیمتوں میں کمی آئی ہے ۔ تیل کی پیداوار مستحکم ہے ۔ یہ امید کی جا رہی تھی کہ عالمی منڈی میںتیل کی قیمتوں میں کمی کے بعد حکومت بھی ملک میں پٹرول و ڈیزل کی قیمت میں کمی کرے گی تاہم قیمتیں کم کرنا تو دور کی بات ہے حکومت نے الٹا اکسائز ڈیوٹی پرا ضافہ کردیا گیا ہے ۔ اس کے ذریعہ عوام پر جو مالی بوجھ عائد ہوگا وہ بے تحاشہ ہوگا اور اس کے نتیجہ میںملک گیر سطح پر مہنگائی بھی بڑھنے لگے گی ۔ فیول کی قیمتوں میں اضافہ کے نتیجہ میں اشیائے ضروریہ کی قیمتیں ایک بار پھر آسمان چھونے لگیں گی اور عوام کی پہونچ سے باہر ہوجائیں گی ۔