سن تو سہی جہاں میںہے تیرافسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلقِ خدا غائبانہ کیا
پارلیمنٹ سرمائی اجلاس کا آج آغاز ہو رہا ہے ۔ حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے اجلاس کی تیاریاں شروع کردی گئی ہیں۔ حکومت نے یوان کی کارروائی کو پرسکون انداز میں چلانے کیلئے اپوزیشن سے تعاون کی درخواست کی گئی ہے جبکہ اپوزیشن نے بھی اپنا موقف واضح کرتے ہوئے ملک کی مختلف ریاستوں میں جاری ایس آئی آر کے مسئلہ پر ایوان میں تفصیلی مباحث کا حکومت سے مطالبہ کیا ہے ۔ دونوںہی فریقین کی جانب سے اپنے اپنے موقف کو واضح تو ضرور کردیا گیا ہے اور ہر فریق اپنے موقف پر اٹل رہنے کی کوشش کرے گا ۔ ضرورت اس باات کی ہے کہ حکومت ہو یا اپوزیشن ہو دونوں ہی ایوان کی کارروائی کو پرسکون انداز میں چلانے اور ملک کو درپیش اہم مسائل پر مباحث کرتے ہوئے ان پر کوئی جامع فیصلہ کرنے کیلئے آگے آئیں۔ گذشتہ کئی مرتبہ پارلیمنٹ کے جو اجلاس منعقد ہوئے ان میں دیکھا گی ہے کہ ملک کی پارلیمانی روایات کو پامال کرتے ہوئے حکومت نے من مانی انداز اختیار کیا تھا ۔ ایوان میں مباحث کی روایت کو برقرار رکھنے کی بجائے کچھ دیر کی مباحث کروائی گئی اور پھر قانون سازی کرلی گئی ۔ کچھ مسائل پر تو ایوان میں مباحث تک نہیں کروائے گئے اور اڈھاک بنیادوں پر فیصلے کرتے ہوئے اپوزیشن کی آواز کو دبانے کی کوشش کی گئی تھی ۔ اپوزیشن نے کئی اہم مواقع پر مسائل پیش کرنے کی کوشش کی ہے لیکن حکومت نے اپوزیشن کو خاطر میں لانے سے ہی گریز کیا اور اپوزیشن کی تجاویز اور مشوروںکو قبول کرنا تو دور کی بات ہے سننا تک بھی گوارہ نہیں کیا تھا ۔ یہ روایت اور طریقہ کار ہندوستانی پارلیمانی روایات کے یکسر مغائر ہے کیونکہ ہندوستان کی یہ پارلیمانی روایات رہی ہیں کہ شدید نظریاتی اختلافات کے باوجود نہ صرف اپوزیشن کو اظہار خیال کا موقع دیا جاتا تھا بلکہ ان کے واجبی اور بہتر مشوروں کو فراخدلی کے ساتھ قبول بھی کیا جاتا تھا ۔ یہ ہندوستانی جمہوریت کا طرہ امتیاز تھا جسے بتدریج ختم کردیا جا رہا ہے جبکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس روایت اور طریقہ کار کو نہ صرف برقرار رکھا جائے بلکہ اس کو مزید مستحکم کیا جائے تاکہ ہماری جمہوریت کی انفرادیت برقرار رہے ۔
اس بار سرمائی اجلاس بہار اسمبلی انتخابات کے بعد ہو رہا ہے ۔ بہار میں این ڈی اے کو توقع اور امیدوں سے بڑی کامیابی ملی ہے جبکہ اپوزیشن مہا گٹھ بندھن کو توقع سے بہت کراری شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ ایسے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ برسر اقتدار اتحاد کا رویہ مزید جارحانہ ہوسکتا ہے اور بہار کی کامیابی کے زعم میں اپوزیشن کی آواز کو دبانے کی کوشش ضرور کی جائے گی ۔ بہار کے انتخابات ایک الگ مسئلہ تھے اور پارلیمنٹ کی کارروائی ایک الگ پہلو رہا ہے ۔ بہار کے نتائج کو پارلیمنٹ کی کارروائی پر اثر انداز ہونے کی اجازت نہیںدی جانی چاہئے ۔ مرکزی حکومت کو اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ ایوان کی کارروائی پرسکون انداز میں چلائی جائے ۔ جو مسائل اپوزیشن کی جانب سے اٹھائے جائیں ان کو سنا جائے ۔ ان کو سمجھا جائے اور ان مسائل پر مباحث کی گنجائش رکھی جائے ۔ حکومت ان پر اپنے موقف کا اظہار کرے ۔ اپوزیشن کی جانب سے جس طرح سے ایس آئی آر پر مباحث پر زور دیا جا رہا ہے اس پر حکومت کو پیچھا چھڑانے کی بجائے اس کا موقع فراہم کیا جانا چاہئے ۔ مباحث سے گریز ہندوستانی پارلیمانی روایات کی مطابقت میں نہیں ہے ۔ اس کے علاوہ ایس آئی آر ایک ایسا مسئلہ ہے جو ملک کی پارلیمانی جمہوریت سے جڑا ہو ا ہے اور اس پر مباحث کرتے ہوئے ملک کے عوام کے سامنے ایک واضح موقف پیش کرنے کی ضرورت ہے ۔ مباحث سے اگر گریز کیا جاتا ہے تو اس سے عوام میں غلط پیام جاتا ہے ۔
پارلیمنٹ کا اجلاس چاہے سرمائی ہو ‘ گرمائی ہو یا پھر مانسون اجلاس ہو اس کی بہت زیادہ اہمیت ہوتی ہے اور ایوان کے ایک ایک منٹ کو عوامی بہتری کے مباحث اورغو ر و خوض اور قانون سازی کیلئے استعمال کیا جانا چاہئے ۔ ایک تو ملک کے عوام کی نظریں اس پر ہوتی ہیں اور عوامی ٹیکس کی بھاری رقومات بھی اس پر خرچ ہوتی ہیں۔ ان کو ضائع ہونے سے بچانے کی ضرورت ہے ۔ اس کی ذمہ داری بڑی حد تک حکومت پر عائد ہوتی ہے اور حکومت کو اکثریت کے زعم میں ایوان کی کارروائی چلانے کی بجائے تعاون پر مبنی رویہ اختیار کرنا چاہئے ۔ اس معاملے میں اپوزیشن کو بھی تعاون فراہم کرنے سے گریز نہیں کرنا چاہئے ۔
