پارلیمنٹ ‘ مباحث سے فرار کیوں؟

   

جشن جنونِ شوق منانے نہیں دیا
خود دل نے اپنا درد دکھانے نہیں دیا
پارلیمنٹ کا مانسون سشن شروع ہوئے چار دن ہوگئے ہیں۔ سشن کے آغاز سے قبل مرکزی حکومت نے کل جماعتی اجلاس طلب کیا تھا ۔ حکومت نے یہ واضح کرنے کی کوشش کی تھی کہ وہ اپوزیشن کی جانب سے اٹھائے جانے والے مسائل پر تبادلہ خیال اور ایوان میں مباحث کیلئے تیار ہے ۔ حکومت کو یہ اندازہ تھا کہ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے آپریشن سندور ‘ پہلگام دہشت گردانہ حملہ ‘ پاکستان کے ساتھ جنگ بندی کا اعلان اور پھر امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے لگاتار دعووں پر اپوزیشن کی جانب سے سوال کیا جائے گا ۔ حکومت کی ناکامیوں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی جائے گی ۔ اپوزیشن نے بھی اپنے منصوبے واضح کردئے تھے اور کہا تھا کہ وہ حکومت سے سوال کرنے سے گریز نہیں کرے گی ۔کسی بھی پارلیمنٹ سشن کے آغاز سے قبل حکومت کی جانب سے کل جماعتی اجلاس طلب کیا جاتا ہے اور ایوان کی کارروائی کو پرسکون انداز سے چلانے کیلئے مدد طلب کی جاتی ہے ۔ جہاں تک ایوان کی کارروائی چلانے کا سوال ہے تو یہ حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ حکومت مسائل سے اور اپوزیشن کے سوالات سے فرار نہیں ہوسکتی ۔ اسے تنقیدوں اور تبصروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ تاہم مودی حکومت نہ ایوان کے باہر کسی کی تنقید کو برداشت کرنے تیار ہے اور نہ ہی وہ ایوان میں تنقیدوں کا سامنا کرنے اور ان کا جواب دینے کو تیار ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس بار مانسون سشن کے آغاز کو چار دن ہوگئے ہیں تاہم ایوان میں سوائے ہنگامہ آرائی کے کوئی کام نہیں ہو پا رہا ہے ۔ صرف ہنگامہ آرائی اور شور شرابہ کی وجہ سے کارروائی کو ملتوی کیا جا رہا ہے ۔ اب سوال یہ پہیدا ہوتا ہے کہ اگر حکومت اپوزیشن کی جانب سے اٹھائے جانے والے مسائل پر مباحث کیلیء تیار ہے تو پھر کارروائی کیوں نہیں چلائی جا رہی ہے ۔ اپوزیشن بھی مسائل پر مباحث کیلئے ہی مصر ہے اور حکومت بھی مباحث چاہتی ہے تو پھر کارروائی میں خلل کیوں پیدا ہو رہا ہے ۔ مسئلہ در اصل یہی ہے کہ حکومت سوالات کا سامنا کرنے اور ان کا جواب دینے کو تیار نہیں ہے اور وہ محض ضابطہ کی کارروائی کے طور پر مباحث کیلئے تیار رہنے کا اعلان کر رہی ہے ۔
اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے لگاتار احتجاج کیا جا رہا ہے ۔ مباحث کی مانگ کی جا رہی ہے ۔ بہار میں فہرست رائے دہندگان پر نظرثانی کے تعلق سے بھی اپوزیشن کی جانب سے سوال کئے جا رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے اختیار کئے جانے والے نامناسب رویہ پر سوال پوچھے جا رہے ہیں۔ تاہم نہ الیکشن کمیشن جواب دینے کو تیار ہے اور نہ ہی حکومت کی جانب سے اس پر کوئی بیان دیا جا رہا ہے ۔ پارلیمنٹ کی کارروائی میں لگاتار خلل پیدا کرتے ہوئے ایوان کا قیمتی وقت ضائع کیا جا رہا ہے ۔ حکومت ملک کے عوام ور پارلیمنٹ میں جواب دینے کی پابند ہے ۔ اسے اپوزیشن کے سوالات کی سماعت کرنا ہوتا ہے ۔ سوالات کے مطابق جواب دینا ضروری ہوتا ہے لیکن مودی حکومت اس ر وش کو ہی تبدیل کرنے پر تلی ہوئی ہے ۔ ایسے کئی پارلیمنٹ سشن ہوئے ہیں جن میں اپوزیشن نے سوال کئے ہیں لیکن حکومت نے ان کے جواب دینے سے گریز کیا ہے اور ایوان میں ہنگامہ آرائی کے ذریعہ وقت برباد کردیا گیا ہے ۔ مودی حکومت شائد پہلی حکومت ہے جو ایوان کی کارروائی کو آگے بڑھانے سے زیادہ ایوان کی کارروائی میں خلل پیدا کرنے کا سبب بن رہی ہے ۔ جس طرح ملک کو چلانا حکومت کا ذمہ ہے اسی طرح ایوان کی کارروائی چلانا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے اور مودی حکومت اپنی اس ذمہ داری کی تکمیل میں ناکام ہوگئی ہے ۔ ملک کے عوام کی توقعات کی تکمیل نہیں ہو رہی ہے جو چاہتے ہیں کہ ایوان میں کام کاج ہو اور کارروائی چلائی جائے ۔
یہ تاثر عام ہونے لگا ہے کہ حکومت اپنے ایجنڈہ کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے اور اس کا ایجنڈہ جمہوری اور پارلیمانی روایات کو ترک کرتے ہوئے اکثریت کے زعم میں کام کرنے کا ہی ہے ۔ ایسا کرتے ہوئے پارلیمنٹ کی اہمیت کو پامال کیا جا رہا ہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت جہاں اپنی واہ واہی کروانے میں مصروف رہتی ہے اور اس کیلئے ٹی وی اینکروں کو ذمہ داریاں سونپ دی گئی ہیں وہیں اسے پارلیمنٹ میں تنقیدوں اور سوالات کا بھی سامنا کرنا چاہئے ۔ ملک کی جمہوری اور پارلیمانی روایات کو پامال کرنے اور پارلیمنٹ کی اہمیت کو پامال کرنے سے گریز کیا جانا چاہئے ۔ یہی حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے ۔