وہ قوم ہی کرتی ہے دنیا کی نگہبانی
میدانِ سیاست میں جو قوم نکلتی ہے
پارلیمنٹ میں بالآخر آپریشن سندور پر مباحث مکمل ہوئے ۔ اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے سوالات کئے ۔ حکومت کو گھیرنے کی کوشش بھی کی ۔ حکومت کی ناکامیوں کا تذکرہ کیا گیا ۔ حکومت کے موقف پر تنقید بھی کی گئی ۔ اپنی اپنی پارٹی کے موقف کو پیش کرنے میں اپوزیشن کے قائدین نے کوئی کسر باقی نہیں رکھی ۔ حکومت کی جانب سے وزیر اعظم نریندر مودی نے سارے مباحث کا جواب دیا ۔ وزیر اعظم نے جس طرح سے پارلیمنٹ میں بیان دیا ہے وہ در اصل کسی پارلیمانی مباحث کا جواب نہیں بلکہ کسی انتخابی جلسہ کی تقریر نظر آ رہی تھی ۔ وزیر اعظم نے یہ دعوی تو کیا کہ پاکستان کے ساتھ جنگ بندی میں کسی عالمی لیڈر کا کوئی رول نہیں ہے ۔ وزیر اعظم تاہم یہ واضح کرنے میں ناکام رہے کہ ہندوستان اور پاکستان سے قبل صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ نے کس طرح سے جنگ بندی کے تعلق سے ٹوئیٹ کرتے ہوئے اعلان کردیا تھا ۔ وزیر اعظم نے اس بات کی بھی وضاحت نہیں کہ جنگ بندی کا اعلان سب سے پہلے ہندوستان نے کیوں نہیں کیا تھا ۔ دونوں ملکوں کے مابین جب جنگ بندی سے اتفاق ہوگیا تھا تو اس کی اطلاع ٹرمپ کوک س طرح سے مل پائی تھی ۔ پارلیمنٹ میں ہوئے مباحث کا جواب دیتے ہوئے وزیراعظم نے حکومت کے اقدامات کو بہتر انداز میں واضح کرتے ہوئے پیش کرنے اور اپوزیشن کی جانب سے اٹھائے گئے سوالات کا جواب دینے کی بجائے اپوزیشن کو ہی نشانہ بنانے کی کوشش کی ہے ۔ و زیر اعظم کا پارلیمنٹ میں کہنا تھا کہ آپریشن سندور کے دوران دنیا بھر کی تائید ہندوستان کو حاصل ہوئی ہے لیکن کانگریس کی تائید نہیںملی ۔ حقیقت یہ ہے کہ کانگریس ہو یا ملک کی دوسری تمام اپوزیشن جماعتیں ہوں سبھی نے حکومت کیلئے مکمل تائید کا اعلان کردیا تھا ۔ حکومت سے کہا تھا کہ وہ دہشت گردانہ حملوں کے ذمہ داروںکو سبق سکھانے کیلئے جو کچھ بھی اقدامات کرنا چاہتی ہے کرے اپوزیشن جماعتیں حکومت کے ساتھ ہیں۔ وزیر اعظم نے اس حقیقت کا اپنی تقریر میں اعتراف نہیں کیا ۔
نریندر مودی نے پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے یہ اعتراف نہیں کیا کہ پہلگام دہشت گردانہ حملے کی قبل از وقت اطلاع کیوں نہیں مل پائی تھی ۔ جس وقت آپریشن سندور شروع نہیں ہوا تھا اس وقت مرکزی وزیر کرن رجیجو نے انٹلی جنس ناکامی کا اعتراف کیا تھا ۔ آپریشن سندور کے دوران اپوزیشن نے اس تعلق سے سوال نہیں کیا ۔ جب آپریشن سندور ہوگیا اور جنگ بندی ہوگئی تب یہ سوال کیا گیا اور یہ سوال کیا جانا بھی چاہئے کہ کس طرح سے ہماری انٹلی جنس ایجنسیاں ایسی اطلاع قبل از وقت حاصل کرنے میںناکام رہی ہیں۔ وزیر اعظم نے اپنی تقریر کے دوران اس ناکامی کا بھی کوئی اعتراف نہیں کیا اور نہ ہی یہ واضح کیا کہ انٹلی جنس ایجنسیوں کے ذمہ داروں میں کتنوں سے جواب طلب کیا گیا ہے اور کس کے خلاف کیا کچھ کارروائی شروع کی گئی ہے ۔ کارروائی کی گئی بھی یا نہیں۔ وزیرا عظم کانگریس پر حکومت کا ساتھ نہ دینے کا الزام عائد کر رہے ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کانگریس کی تائید ہی تھی جس کے بعد حکومت نے دنیا بھر میں جو اپنے وفود روانہ کئے ان میں کانگریس کے ارکان پارلیمنٹ کو شامل کیا گیا تھا ۔ دیگر اپوزیشن جماعتوں نے بھی اس وقت میں ملک کا ساتھ دیا تھا اور حکومت کے ساتھ کھڑی تھیں ۔ ان کے ارکان پارلیمنٹ کو بھی ان وفود میں شامل کیا گیا تھا ۔ اگر کانگریس یا دوسری جماعتوں نے حکومت کا ساتھ نہیں دیا ہوتا تو ان وفود میں ان جماعتوں کے ارکان پارلیمنٹ کو قطعی جگہ نہیں دی گئی ہوتی ۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے جواب میں کانگریس کا پاکستان سے تقابل کرنے کی کوشش کی ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ بی جے پی اور اس کے قائدین جب کبھی سیاسی صورتحال ان کے قابو سے باہر ہوتی ہے یا پھر انتخابات کا موسم ہوتا ہے پاکستان کا تذکرہ کرنے سے باز نہیں آتے اور بار بار پاکستان کا نام لیا جاتا ہے ۔ پارلیمنٹ میںجواب دیتے ہوئے وزیر اعظم نے اسی روش کوبرقرار رکھا ہے ۔ جس طرح اپوزیشن نے ہر فیصلے میں حکومت کی تائید کا اعلان کیا تھا اسی طرح حکومت کو جوابی خیرسگالی کا اظہار کرتے ہوئے اپوزیشن کی تائید کا اعتراف کرنا چاہئے تھا اور قومی سلامتی جیسے مسئلہ میں ان کے تعاون کی ستائش کرنی چاہئے تھی ۔