پارلیمنٹ میںشخصی حملے ‘ بوکھلاہٹ

   

پارلیمنٹ ‘ جمہوریت کا ایک اعلی ترین ادارہ ہے ۔ اس کی عزت و احترام لازمی ہے ۔ یہ باوقار مرکز ہے جس میں ملک بھر کے عوام کی نمائندگی ہوتی ہے اور ان کی رائے سے ہی ارکان یہاں تک پہونچتے ہیں تاکہ عوام اورم لک کے مسائل کی یکسوئی کیلئے اقدامات کئے جاسکیں۔ پالیسیاں اور پروگرامس بنائے جاسکیں۔ حکومت اور اپوزیشن کے مابین ان پالیسیوں اور پروگرامس پر تبادلہ خیال کیا جاسکے ۔ حکومت اپنے پروگرامس اور منصوبے پیش کرے ۔ اپوزیشن ان کا جائزہ لے اور درکار و ضروری تجاویز پیش کرے ۔ اگر ان تجاویز کو مناسب سمجھا گیا تو حکومت ان کو اپنے منصوبوں میںشامل بھی کرے ۔ یہ پارلیمنٹ کا کام کاج ہے تاہم ایسا لگتا ہے کہ پارلیمنٹ میں بھی سیاست کو ہی ترجیح دی جا رہی ہے ۔ صرف حکومت مخالفین کو نشانہ بنانے کی روایت چل پڑی ہے ۔ گذشتہ لوک سبھا میں تو بی ایس پی کے رکن کنور دانش علی کو دہشت گرد کہا گیا تھا اور انتہائی سڑک چھاپ اور ناشائستہ زبان استعمال کی گئی تھی ۔ اب ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی راہول گاندھی کو بحیثیت قائد اپوزیشن قبول کرنے تیار نہیں ہے ۔ ایک دوسرے کی رائے سے اختلاف کی گنجائش ضرور ہے اور یہی جمہوریت کا طرہ امتیاز ہے لیکن سیاسی مخالفین کو شخصی طور پر نشانہ بنانے سے سبھی کو گریز کرنے کی ضرورت ہے ۔ لوک سبھا میں جب ذات پات پر مبنی مردم شماری کا مسئلہ درپیش آیا تو بی جے پی رکن انوراگ ٹھاکر نے اپنی بوکھلاہٹ کا کھلا ثبوت دیا ۔ انہوں نے راہول گاندھی کی مخالفت میں ایک طرح سے اپنا آپا کھودیا اور یہاںتک کہہ دیا کہ جن کو خود اپنی ذات کا پتہ نہیں ہے وہ ذات پات پر مبنی مردم شماری کی بات کر رہے ہیں۔ یہ ایک طرح سے نہ صرف انوراگ ٹھاکر کی شخصی بوکھلاہٹ کا ثبوت ہے بلکہ یہ ساری بی جے پی کی بوکھلاہٹ ہے اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ بی جے پی کس طرح سے راہول گاندھی کی جانب سے اٹھائے جانے والے مسائل پر چراغ پا ہو رہی ہے ۔ اسے ایوان کے وقار اور احترام کا بھی پاس و لحاظ نہیں رہ گیا ہے ۔ وہ محض اپنے سیاسی مخالفین کو شخصی طور پر نشانہ بنانے یا ان کی کردار کشی کرنے پر توجہ کر رہی ہے ۔
جب راہول گاندھی نے اس ہتک آمیز ریمارک پر اظہار خیال کیا تو ہمیشہ کی طرح یہ کہا گیا کہ بی جے پی رکن انوراگ ٹھاکر نے کسی کا نام نہیں لیا ۔ ایوان میں صرف ان کے تعلق سے اظہار خیال کیا جاتا ہے جو ایوان میںموجود رہتے ہیں یا ایوان کے رکن ہوتے ہیں۔ اگر واقعی راہول گاندھی کی ذات پات کو نشانہ نہیں بنایا گیا تو یہ بات واضح ہے کہ کسی نہ کسی رکن کی ذات کو نشانہ بنایا گیا ہے ۔ اگر ملک کے کسی عام شہری کی ذات پات پر بھی بات کی گئی تو یہ انتہائی قابل مذمت ہے ۔ انوراگ ٹھاکر کو یہ واضح کرنا چاہئے کہ اگر راہول گاندھی ان کے نشانہ پر نہیں تھے تو پھر انہوں نے کس کے تعلق سے یہ ریمارک کیا ہے ؟ ۔ انہیںاس طرح کا انتہائی ذاتی اورنجی تبصرہ کرنے اور کسی کی ذات پات پر سوال کرنے کی ضرورت کیوںمحسوس ہوئی ؟ ۔ اس سے حکومت کے منصوبوں اور حکمت عملی کا کیا تعلق ہے ؟ ۔ ساری صورتحال سے واضح ہوتا ہے کہ حکومت اور بی جے پی کے ارکان راہول گاندھی کے بدلے ہوئے اور جارحانہ تیور کو قبول اور برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ وہ حکومت کے موقف کو واضح اور موثر ڈھنگ سے ایوان میںپیش کرنے کی بجائے قائد اپوزیشن کو شخصی طور پر نشانہ بنا رہے ہیں۔ یہ اپنی عادت سے مجبور ہیں کیونکہ راہول گاندھی کو ہمیشہ نشانہ بنایا گیا ہے ۔ تاہم بی جے پی اورا س کے ارکان یہ فراموش کر رہے ہیں کہ راہول گاندھی اب محض ایک رکن لوک سبھا نہیںبلکہ قائد اپوزیشن کے ذمہ دار اور دستوری عہدہ پر فائز ہیں ۔
ملک کے عوام میں یہ تاثر عام ہوگیا ہے کہ بی جے پی راہول گاندھی کی جانب سے اٹھائے جانے والے مسائل اور ان کو ملنے والی حمایت تائید و حمایت سے بوکھلاہٹ کا شکار ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مسائل کے راست اور موثر ڈھنگ سے جواب دینے کی بجائے شخصی عناد کا راستہ اختیار کیا جا رہا ہے ۔ کسی کی ذات پات پر سوال کرنا ویسے ہی قابل گرفت ہے اور اگر ایسا کام پارلیمنٹ میںکیا جاتا ہے تو یہ اور بھی قابل مذمت ہے ۔ بی جے پی کو اپنے رکن سے اس مسئلہ پر وضاحت طلب کرنی چاہئے اور ایوان میں کسی بھی رکن کے تعلق سے اس طرح کے ریمارکس اور تبصروںسے گریز کرنے کی اپنے ارکان کو ہدایت دینی چاہئے ۔