ہندوستان میں پارلیمانی جمہوریت ہے ۔ یہاںملک اور ملک کے عوام کے تعلق سے اہم ترین فیصلے پارلیمنٹ کے ایونوں میںکئے جاتے ہیں۔ ان مسائل پر مباحث کئے جاتے ہیں جن سے عوام کا تعلق ہوتا ہے ۔ ملک کی ترقی اور مستقبل کے منصوبوںپر غور و خوض کیا جاتا ہے ۔ حکومت اپنے منصوبے پیش کرتی ہے ۔ اپوزیشن جماعتیں اس میں اپنی تجاویز پیش کرتی ہیں۔ سب پر تبادلہ خیال ہوتا ہے اور پھر کوئی فیصلہ کیا جاتا ہے ۔ حالیہ چند برسوںمیں دیکھا گیا ہے کہ پارلیمنٹ کو سیاسی دنگل اور اکھاڑہ میں تبدیل کردیا گیا ہے ۔ حکومت اپنی اکثریت کے زعم میں مبتلا ہے اور وہ اپوزیشن کو خاطر میں لانا نہیںچاہتی ۔ اپوزیشن بھی اپنے مسائل کو اٹھانے کے معاملے میں اٹل موقف رکھتی ہے ۔ کسی کے رویہ اور موقف میںکوئی لچک نہیں ہے اور نہ ہی ایک دوسرے کے موقف کو سننے اورسمجھنے کو کوئی تیار ہے ۔ ایسے میں سب سے زیادہ نقصان ملک کے عوام کا ہو رہا ہے ۔ پارلیمنٹ کا قیمتی وقت ضائع ہو رہا ہے اور عوام کے ٹیکس سے جمع ہونے والی کثیر رقومات بھی اس پر ضائع ہو رہی ہیں۔ پارلیمنٹ میں انتہائی اہمیت کے حامل مسائل پر کوئی مباحث نہیں ہو پا رہے ہیں اور نہ ہی اتفاق رائے پیدا ہو رہا ہے ۔ کئی امور ایسے ہوتے ہیں جن پر حکومت اور اپوزیشن کے مختلف آراء ہونے کے باوجود اتفاق رائے کی اہمیت اور ضرورت ہوتی ہے لیکن موجودہ تعطل کی صورتحال میں ایسا ہرگز ممکن نہیں ہو پا رہا ہے ۔ پارلیمنٹ کی کارروائی کی اہمیت اور افادیت متاثر ہونے لگی ہے اور کوئی بھی فریق اس پر غور کرنے اور تعطل ختم کرنے کیلئے کوئی پہل نہیں ہو رہی ہے ۔ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے حالانکہ حکومت کو تجاویز پیش کرنے کی کوشش ضرور کی جا رہی ہے لیکن حکومت اس معاملے میں کوئی مثبت رویہ اختیار کرتی نظر نہیں آ رہی ہے ۔ پارلیمنٹ کو چلانا حکومت کی ذمہ داری ہے اور اپوزیشن کو اس معاملے میں محض اپنا تعمیری تعاون دینا ہوتا ہے ۔ ایسے میں حکومت کو ایوان کی کارروائی کو آگے بڑھانے اور معمول کے مطابق کارروائی کو یقینی بنانے کیلئے آگے آنا چاہئے اور ایوان کی کارروائی کو پرسکون انداز میںچلانا چاہئے ۔
لوک سبھا ہو یا پھر راجیہ سبھا ہو دونوں ہی ایوانوں میں لگاتار تعطل کا سلسلہ چل رہا ہے اور کوئی کام کاج پرسکون انداز میں اور ملک کی جو پارلیمانی روایات رہی ہیںان کے مطابق نہیں ہو پا رہا ہے ۔ اپوزیشن کی شکایت ہے کہ انہیں اظہار خیال کا موقع نہیں دیا جا رہا ہے ۔ کرسی صدارت پر جانبداری کے الزام بھی عائد کئے جا ر ہے ہیں۔ صورتحال انتہائی غیر یقینی دکھائی دے رہی ہے ۔ لوک سبھا کا بھی یہی ہے اور راجیہ سبھا میں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پارلیمنٹ اور اس کی کارروائی کی اہمیت کو سمجھا جائے ۔ جہاں حکومت اپنا موقف واضح انداز میں پیش کرے اور اپنے پروگرامس اور منصوبوں پر تفصیلات پیش کرے وہیں اپوزیشن کو بھی یہ موقع دیا جاناچاہئے کہ وہ اپنی تجاویز پیش کرے ۔ اپنی رائے سے ایوان کو واقف کروایا جائے ۔ دونوں فریقین کے موقف کو پیش نظر رکھتے ہوئے کوئی ایک رائے پر پہونچا جائے ۔ ایک دوسرے کی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے انہیں موقع دیا جانا چاہئے ۔ صرف سیاسی اکھاڑہ یا دنگل بناتے ہوئے پارلیمنٹ کی کارروائی کو متاثر کرنے سے گریز کیا جانا چاہئے ۔ سیاست کرنے اور سیاسی چال چلنے کیلئے پارلیمنٹ کے باہر پورا موقع ہے اور وہاں ایسا کیا جاسکتا ہے ۔ پارلیمنٹ کے تقدس کو برقرار رکھتے ہوئے ملک و قوم کو درپیش مسائل پر مباحث کئے جانے چاہئیں اور ان کے ذریعہ کوئی فیصلہ کرنا چاہئے ۔ یہ ہمیشہ کی روایت رہی ہے اور اسی کو برقرار رکھا جانا چاہئے ۔
موجودہ صورتحال ملک کے عوام کیلئے بھی مایوس کن کہی جاسکتی ہے ۔ ملک کے عوام نے اپنے اپنے نمائندوں کوووٹ کے ذریعہ منتخب کیا ہے اور انہیں اپنے مسائل پیش کرنے کیلئے ایوان میںروانہ کیا ہے ۔ عوام کے فیصلے کا سبھی کو احترام کرنا چاہئے ۔ عوام سے ووٹ لیتے ہوئے اپنے سیاسی عزائم کی تکمیل کیلئے پارلیمنٹ اور اس کی کارروائی کا استحصال نہیں کیا جانا چاہئے ۔ حکومت کو اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے اس معاملے میں آگے آنے کی ضرورت ہے اور فراخدلی سے اپوزیشن کے موقف کو سمجھنا چاہئے ۔ لگاتار تعطل سے ایوان کا وقار مجروح ہوسکتا ہے اور اس پر عوامی اعتماد متاثر ہوسکتا ہے تاہم ایسا ہونے کا موقع نہیں دیا جانا چاہئے ۔