پارلیمنٹ کا مانسون اجلاس

   

Ferty9 Clinic

گرمی گفتار اعضائے مجالس الاماں
یہ بھی ہے اہل سیاست کی نئی بازیگری
پارلیمنٹ کے مانسون سشن کا پیر سے آغاز ہونے والا ہے ۔ حسب روایت آج وزیر اعظم نریندر مودی نے کل جماعتی اجلاس کی صدارت کی اور ایوان کی کارروائی کو بہتر ڈھنگ سے چلانے میں اپوزیشن سے تعاون طلب کیا ۔ یہ ایک روایت ہے جس کے تحت ہر پارلیمانی سشن سے قبل کل جماعتی اجلاس طلب کرتے ہوئے اپوزیشن سے تعاون کی خواہش کی جاتی ہے ۔ اس بار مانسون سشن ایسے وقت میں شروع ہو رہا ہے جب کئی مسائل پر حکومت کو عوام کو جواب دینے کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے ۔ باضابطہ طور پر حکومت نے کئی اہم ترین مسائل پر عوام کو کوئی جواب نہیں دیا ہے ۔ خاص طور پر کورونا کی دوسری لہر کے دوران ملک کے عوام کو پیش آئی مشکلات اور حکومت کی ناکامی و نا اہلی کے واقعات پر حکومت صرف زبانی جمع خرچ سے کام لے رہی ہے ۔ حقیقی صورتحال کو چھپائے رکھنے کی حتی المقدور کوشش کی گئی ہے ۔ کئی ریاستوں میں عوام انتہائی بی بسی کی حالت میں رہے ہیں اور اب بھی انہیں کورونا کے مابعد اثرات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ حکومت کی جانب سے انتہائی سنگین اور مہلک ترین دوسری لہر کے دوران عوام کی کوئی مدد نہیں کی گئی اور انہیں حالات کی مار کھانے کیلئے تنہا چھوڑ دیا گیا تھا ۔ کئی ریاستوں میں مرکزی و ریاستی حکومتوں کا وجود ہی دیکھنے میں نہیں آیا ۔ صرف میڈیا میں بیٹھ کر بیان بازی کرتے ہوئے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ ہندوستان کے لاکھوں خاندان ایسے ہیں جنہوں نے کورونا کی دوسری لہر کے دوران اپنوں کو کھویا ہے ۔ کئی خاندان بے یار و مددگار ہوگئے ہیں۔ ان کے روزی روٹی کمانے والے ارکان اس دنیا سے رخصت ہوگئے ۔ کئی خواتین بیوہ ہوگئیں ۔ کئی ماووں کی گود اجڑ گئی اور کئی گھر تباہ ہوگئے ۔ جس طرح کورونا کی دوسری لہر کے دوران عوام کو سانس لینے میں مشکلات پیش آ رہی تھیں وہیں انہیں اپنوں کی آخری رسومات تک ادا کرنے کی سہولیات میسر نہیں تھیں۔ پہلی لہر سے نمٹنے کا تجربہ رکھنے کے باوجود حکومت نے دوسری لہر میں حد درجہ نا اہلی اور ناکامی کا ثبوت دیا ہے اور اب ملک کے عوام کو پارلیمنٹ کے ایوان سے اس کا جواب دینا چاہئے ۔
کورونا اور اس کی تباہی کے علاوہ پٹرولیم اشیا کی قیمتوں پر بھی حکومت کو اپنے موقف کو واضح کرنے کی ضرورت ہے ۔ عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں کمی کے باوجود ملک میں پٹرول اور ڈیزل کے علاوہ پکوان گیس کی قیمتیں تاریخ میں سب سے زیادہ اونچائی پر چلی گئی ہیں۔ حکومت نے پٹرولیم اشیا کی قیمتوں کا تعین کرنے کا اختیار تیل کمپنیوں کے حوالے کرتے ہوئے خود کو بر ی الذمہ سمجھ لیا ہے ۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ملک میں مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی جانب سے پٹرولیم اشیا کی اصل قیمتوں سے دوگنا بلکہ اس سے بھی زیادہ ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے ۔ غریب عوام سے ٹیکس کی رقومات حاصل کرتے ہوئے ان کی کوئی مدد تک نہیں کی جا رہی ہے بلکہ یہ رقومات چند مٹھی بھر حاشیہ بردار کارپوریٹس کے قرضہ جات معاف کرنے میں صرف کی جا رہی ہے ۔ ان کارپوریٹس کو مسلسل مراعات بھی فراہم کی جا رہی ہیں۔ صنعتوں کیلئے پیکج کے نام پر غریب عوام کو لوٹا جا رہا ہے ۔ ملک کی ترقی کی دہائی دیتے ہوئے عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالا جا رہا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ملک کی جملہ گھریلو پیداوار منفی ہوگئی ہے ۔ صنعتوں میں بحران کی کیفیت ہے ۔ صنعتی پیداوار متاثر ہو کر رہ گئی ہے ۔ لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں روزگار ختم ہوگئے ہیں۔ مودی حکومت نے عوام کو ہر سال دو کروڑ روزگار فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن صرف گذشتہ دو سال کے وقفہ میں ڈھائی کروڑ روزگار ختم ہوگئے ہیں۔ بیروزگاری اپنی حدوں کو چھو رہی ہے اور مودی حکومت اس پر بھی کچھ کرنے سے قاصر ہے ۔
جہاں تک اپوزیشن کی بات ہے کہ ان تمام کو ایک مشترکہ حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے ایوان میں حکومت سے سوال پوچھنے چاہئیں۔ صرف سیاسی مقصد براری کی بجائے حکومت کی ناکامیوں کو ایوان سے عوام کے سامنے بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہر مسئلہ پر حکومت سے جواب طلب کرتے ہوئے عوام کو حقیقت سے واقف کروایا جانا چاہئے ۔ حکومت کو بھی ایوان میں اپوزیشن کے سوالات کا سامنا کرنے کی ضرورت ہے ۔ صرف اکثریت کے بھرم میں رہتے ہوئے چل چلاو والا رویہ اختیار کرنے سے گریز کرناچاہئے ۔ اس سے جمہوری اصولوں کی نفی ہوتی ہے ۔ حکومت کو ہر ہر سوال کا پارلیمنٹ کے ایوان سے جواب دینا چاہئے تاکہ پارلیمنٹ کی اہمیت اورتقدس بھی برقرار رہ پائے ۔