پرشانت کشور ‘ کس کا نقصان ‘ کس کا فائدہ

   

جس ملک میں لوگوں کو انصاف نہیں ملتا
اُس ملک کے لوگوں کے افکار بدل دینا
بہار میں جیسے جیسے اسمبلی انتخابات کا وقت قریب آتا جا رہا ہے ویسے ویسے سیاسی سرگرمیوں میں تیزی آنے لگی ہے اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے اپنی سرگرمیوں میں تیزی پیدا کردی گئی ہے ۔ جہاں کچھ پرانی اور روایتی جماعتیں اپنے ووٹ بینک کو مستحکم رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں وہیں کچھ نئی جماعتیں اور نئے قائدین بھی ابھر کر سامنے آ رہے ہیں اور وہ انتخابی عمل میں اپنی قسمت آزمائی کی تیار ی کرنے لگے ہیں۔ ان ہی میں ایک پرشانت کشور بھی ہیں جنہوں نے بہار میں جن سوراج پارٹی تشکیل دی تھی ۔ وہ سارے بہار کے دورے بھی کرچکے ہیں اور اسمبلی کی تمام نشستوں کیلئے مقابلہ کرنے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔ پرشانت کشور سیاسی تجزیہ نگار رہے ہیں اور انہوں نے ماضی میں بی جے پی ‘ نتیش کمار کی جے ڈی یو ‘ ممتابنرجی کی ترنمول کانگریس ‘ تلگودیشم پارٹی اور جگن کی وائی ایس آر کانگریس پارٹی کے ساتھ بھی کام کیا ہے ۔ 2014 میں جب بی جے پی اقتدار پر آئی تو اس وقت پرشانت کشور بی جے پی کے ساتھ تھے ۔ 2024 کے پارلیمانی انتخابات سے قبل امید کی جا رہی تھی کہ پرشانت کشور کانگریس کے ساتھ کام کریں گے تاہم دونوں میں اتفاق رائے نہیں ہوسکا اور پرشانت کشور نے خاموشی اختیار کرلی ۔ پھر وہ بہار کے سیاسی منظر نامہ پر نمودار ہوئے اور وہاں انہوں نے اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا ۔ بہار میں انہوں نے کئی اضلاع کا دورہ کیا ۔ بہار کے عوام سے ملاقات کی ۔ بہار کے طلباء کے احتجاج کے روح رواں بننے کی کوشش کی ۔ اپنی سیاسی جماعت جن سوراج کے نام سے قائم کی اور اب وہ اسمبلی انتخابات میں مقابلہ کیلئے پر تول رہے ہیں۔ پرشانت کشور یہ اعلان کرچکے ہیں کہ ان کی پارٹی کسی سے اتحاد نہیں کرے گی بلکہ وہ ریاست کی تمام 243 نشستوں پر مقابلہ کرے گی ۔ یہ بات طئے ہے کہ نئی سیاسی جماعت کے داخلہ اور تمام نشستوں پر مقابلہ سے ریاست کے انتخابی عمل پر اثر ہوسکتا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس مقابلہ سے کسی کو فائدہ بھی ہوگا اور کسی کا نقصان بھی ہوگا ۔ پرشانت کشور خود بھی اس بات کے معترف ہیں کہ ان کی پارٹی کو لوگ ووٹ کٹوا قرار دے رہے ہیں۔
بہار کے اسمبلی انتخابات بہت اہمیت کے حامل ہیں ۔ ریاست میں نتیش کمار کے دو دہوں سے چلے آ رہے اقتدار کو ختم کرنے کیلئے کانگریس ۔ آر جے ڈی اور دوسری جماعتیں سرگرم ہو رہی ہیں تو بی جے پی اور دوسری جماعتیں نتیش کمار کے ساتھ ہیں اور وہ اقتدار کی برقراری کیلئے جدوجہد کر رہی ہیں۔اس صورتحال میں پرشانت کشور کسی بھی اتحاد کے ساتھ مفاہمت کئے بغیر مقابلہ کرتے ہیں تو یہ بات یقینی ہے کہ اس کے نتیجہ میں کانگریس ۔ آر جے ڈی اور کمیونسٹ جماعتوں کے اتحاد کو نقصان ہوسکتا ہے ۔ مخالف حکومت ووٹ اگر تقسیم ہوجاتے ہیں تو اس کے نتیجہ میں بی جے پی اور نتیش کمار کو انتخابی فائدہ ملنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ کچھ گوشوں سے یہ تاثر بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ پرشانت کشور بی جے پی کے آلہ کار کا رول ادا کریں گی ۔ دو دہوں کے اقتدار کے بعد نتیش کمار کے خلاف عوامی رائے میں شدت پیدا ہونے لگی ہے اور بی جے پی کو بھی اس بات کا احساس ہونے لگا ہے ۔ چونکہ پرشانت کشور پہلے بھی بی جے پی کے ساتھ کام کرچکے ہیں اور نتیش کمار کی پارٹی میں بھی وہ شامل ہوچکے تھے اور نائب صدر کے عہدہ پر فائز رہے تھے ایسے میں یہ اندیشے تقویت پانے لگے ہیں کہ رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کیلئے پرشانت کشور کو میدان میں اتارا جارہا ہے تاکہ ریاست میں اقتدار کی تبدیلی کو روکا جاسکے ۔ یہ آثار چونکہ تقویت پاتے جا رہے ہیں کہ عوام اقتدار کی تبدیلی کے حق میں ووٹ دینگے اس لئے بھی پرشانت کشور کے مقابلہ کو اہمیت حاصل ہو گئی ہے ۔
وزیر اعظم نریندر مودی بھی ریاست کی صورتحال کو محسوس کرتے ہوئے ابھی سے عملا انتخابی مہم کا آغاز کرچکے ہیں اور نتیش کمار کی سرگرمیوں میں بھی تیزی آگئی ہے ۔ اپوزیشن اتحاد کی جانب سے بھی تیاریوں کا آغاز کردیا گیا ہے ۔ ایسے میں پرشانت کشور کا میدان میں آجانا دونوں ہی فریقین کیلئے اہمیت رکھتا ہے ۔ پرشانت کشور سے کس کو انتخابی فائدہ ہوگا اور کس کو نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا یہ ابھی کہا نہیں جاسکتا ۔ تاہم یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ بی جے پی اور نتیش کمار عوامی ناراضگی کو محسوس کرچکے ہیں اور وہ راست مقابلہ کی بجائے مخالف حکومت ووٹوںکو تقسیم کرنے کے منصوبوںپر عمل پیرا ہوچکے ہیں۔