پروفیسر شاہ سید عطاء اللہ حسینی رحمہ اللہ

   

اس دنیا میں انسان کی آمد اور رفت ایک معمول کا عمل ہے۔ جو انسان بھی دنیا میں آیا ایک نہ ایک دن قانونِ قدرت کے تحت اسے سفرِ آخرت اختیار کرنا ہی پڑتا ہے۔دنیا سے کوچ کرنے والوں میں ایسے محترم انسان بھی شامل ہیں جو کسی ایک شعبے کے ماہر نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں جامع الکمالات کہلانے کے مستحق تھے۔ انہی محترم بزرگوں میں پروفیسر ڈاکٹر سید عطاء اللہ حسینی القادری الملتانی قدس سرہ العزیز بھی شامل تھے جو سلسلہ عالیہ قادریہ ملتانیہ امام پورہ شریف حیدرآباد دکن کی عظیم المرتبت بزرگ شخصیت حضرت ابو المعالی شاہ سید پیر حسینی القادری الملتانی (ثانی) المعروف صاحباں پاشاہ قدس سرہ العزیز کے فرزند اصغر اور خلیفہ تھے۔ آپؒ نے مورخہ ۱۴ جون ۲۰۲۲؁ ءکو جامعہ ملیہ ملیر کراچی میں مختصر سی علالت کے بعد دنیا سے کوچ کیا اور اپنے لا تعداد شاگردوں، عقیدت مندوںاور بہی خواہوں کے دلوں میں یادوں کی کہکشاں چھوڑ گئے۔ پروفیسر صاحبؒ اپنے اہل تعلق اور تلامذہ میں ’حسینی صاحب‘ کے نام سے معروف تھے ۔ حسینی صاحبؒ ایک جامع الکمالات بزرگ تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ بیک وقت عالم دین، مفسرِ قرآن، نامور استاد، مصنف، مترجم، شاعر اور منتظم کے علاوہ نہایت ماہر ہومیوپیتھک ڈاکٹر بھی تھے۔ حسینی صاحبؒ کراچی کے معروف تعلیمی ادارے جامعہ ملیہ ملیر کے عہدِ زریں کی آخری یادگار تھے۔ جامعہ ملیہ کے بانی اور سابق وائس چانسلر کراچی یونیورسٹی ڈاکٹر محمود حسین خان کے ساتھیوں میں وہ غالباً آخری استاد تھے جنہوں نے اس ادارے میں رہ کر کئی نسلوں کو نہ صرف زیور علمی سے آراستہ کیا بلکہ ان کی دینی اور اخلاقی تربیت بھی کی۔ حسینی صاحبؒ کو یہ اعزاز بھی حاصل رہا کہ جامعہ ملیہ کے متعدد تلامذہ کو انہوں نے فنِ تقریر بھی سکھایا ۔ حسینی صاحبؒ کو ڈاکٹر محمود حسین مرحوم نے ۱۹۶۵؁ ء میں جامع مسجد باب الفضل کی اعزازی خطابت کی ذمہ داری سونپی تھی جسے انہوں نے تاوقتِ آخر بحسن و خوبی نبھایا۔ حسینی صاحبؒ نے جامعہ ملیہ کے عہدِ زریں میں بہت سے تعمیری کام بھی کیے تھے جن میں ایک اہم کام یہ تھا کہ نقشوں اور چارٹوں کے ذریعے مکمل سیرۃ النبیؐ اس طرح پیش کی جائے کہ ناظر کو سیرت طیبہ کے ایک ایک مرحلے سے مکمل آگاہی ہوجائے۔ وہ فرماتے تھے کہ اس مقصد کی خاطر انہوں نے بڑی محنت سے نقشے اور چارٹ تیار کیے اور اپنی نگرانی میں کرائے تھے۔ یہ نمائش ہر سال ربیع الاول میں ہوتی، جو بھی انہیں دیکھتا وہ حسینی صاحبؒ کی موضوع پر گرفت اور عمدہ پیشکش کی تعریف کرتا۔ حسینی صاحبؒ گو جنوبی ہند کے ایک معروف دینی ادارے جامعہ نظامیہ کے فارغ التحصیل تھے۔وہ ایک ہمدرد، شفیق اور خوش مزاج اور حالاتِ زمانہ سے باخبر بزرگ تھے۔ وہ مطالعے کے بڑے شائق اور ایک قیمتی کتب خانے کے مالک تھے جس میں تفاسیر، سیرت، سوانح، تاریخ، شاعری اور دیگر موضوعات پر نہایت نادر کتب موجود ہیں۔ وہ آخر دم تک مطالعے کے شائق رہے اور اپنے کتب خانے میں نئی دینی، علمی و ادبی کتب کا اضافہ کرتے رہتے ۔ آپؒ کی گفتگو بڑی مدلل اور معلومات افزا ہوتی خصوصاً قرآن پاک کے تفسیری نکات پر آپؒ کی بڑی گہری نظر تھی۔ تفاسیر قرآن میں وہ علامہ آلوسی کی روح المعانی کو بہت پسند فرماتے ۔ اگر حالاتِ حاضرہ پر گفتگو فرماتے تو وہ بھی بڑی معلومات افزا اور مدلل ہوتی۔ اگر کسی سے اختلاف بھی کرتے تو اس قدر مہذب اور مدلل انداز میں کہ مخاطب بالآخر حسینی صاحبؒ کی رائے کو قبول کرلیتا۔ دراصل حسینی صاحبؒ کی شخصیت میں علم اور عملِ صالح کا بہت خوبصورت امتزاج نظر آتا تھا۔ ان کی شخصیت ایک وضع دار اور تہذیبی شخصیت تھی۔ ان کی شخصیت میں ہماری تہذیب کے وہ محاسن جمع ہوگئے تھے جن سے ہماری نئی نسلیں مادیت کے سیلاب میں دور ہوتی جارہی ہیں۔ اس تہذیب کے بنیادی عناصر میں مضبوط سیرت و کردار، پاکیزہ اخلاق، معاملات میں راست روی، معاشرت میں حسنِ سلوک، سلامت روی، اعتدال اور اسی طرح کے دیگر محاسن شامل ہیں۔ حسینی صاحبؒ ہومیوپیتھک طریقہ علاج کے بھی ماہر تھے ۔ پروفیسر سید عطاء اللہ حسینی ؒکا تعلق حیدرآباد دکن کے مشائخ کے اہم سلسلے سلسلۂ عالیہ قادریہ ملتانیہ سے تھا۔ ایک نامور استاد ہونے کے باوصف حسینی صاحبؒ عمدہ ادبی اور شعری ذوق بھی رکھتے تھے۔ پروفیسر شاہ سید عطاء اللہ حسینی القادری الملتانیؒ ایک پُر عزم اور پُر عزیمت زندگی گزار کر مختصر علالت کے بعد مورخہ ۱۴ جون ۲۰۲۲؁ ءمطابق ۱۳؍ ذیقعدۃ الحرام ۱۴۴۳ ؁ھ کو راہیِ ملک بقا ہوگئے۔ تدفین اسی شام جامع مسجد ابو الفضل جامعہ ملیہ کی جنوبی دیوار کے سائے میں ہوئی۔دعا ہے کہ اللہ تعالی ان کی کامل مغفرت فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔

وہ فرماتے تھے کہ تقریباً تین سو برس قبل ان کے بزرگ حضرت شاہ سید پیر حسینی القادری الملتانی محققؔ قدس سرہ العزیز ملتان سے ارکاٹ تشریف لائے پھر وہاں سے حیدرآباد دکن پہنچے تھے۔ اسی وجہ سے حیدرآباد دکن میں ان کی آبائی رہائش گاہ ملتانیہ منزل کے نام سے معروف تھی۔ پروفیسر سید عطاء اللہ حسینی القادری الملتانی قدس سرہ العزیز کی ولادت 10 فروری 1931ء کو حیدرآباد میں ہوئی اور وہیں جامعہ نظامیہ سے مولوی فضل کی سند حاصل کی۔ عالم اسلام کے نامور محقق و مصنف ڈاکٹر محمد حمید اللہ بھی جامعہ نظامیہ کے طالب علم رہ چکے تھے۔ حسینی صاحبؒ کو جامعہ نظامیہ کے ایک سو پچیس سالہ جشن (منعقدہ اکٹوبر 1996ء) میں پاکستان سے بطور مہمانِ خصوصی مدعو کیا گیا تھا۔ اس موقع پر دیگر حضرات کے علاوہ قطر سے ڈاکٹر یوسف القرضاوی نے بھی شرکت کی تھی۔ حسینی صاحبؒ نے ہومیوپیتھک طریقہ علاج میں مہارت کی خاطر ایچ ایم بی کی ڈگری کلکتہ سے اور آر ایم پی کی ڈگری حیدرآباد دکن سے حاصل کی تھی۔ وہ مولانا ابو الوفاء افغانیؒ کے ادارے لجنۃ الاحیاء المعارف النعمانیہ حیدرآباد میں بھی خدمات انجام دے چکے تھے۔ پاکستان آمد کے بعد انہوں نے تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور کراچی یونیورسٹی سے ایم اے (علوم اسلامیہ) کی سند حاصل کی۔ جن تعلیمی اداروں میں آپؒ نے بحیثیت استاد خدمات انجام دیں ان میں علامہ عثمانی اسلامیہ اسکول اور جامعہ ملیہ پائلٹ سیکنڈری اسکول میں بحیثیت استاد عربی و اسلامیات شامل ہیں۔ اس کے بعد جن کالجوں میں بحیثیت صدر شعبہ معارف اسلامیہ خدمات انجام دیں ان میں جامعہ ملیہ گورنمنٹ ڈگری کالج، اسلامیہ آرٹس اینڈ کامرس کالج اور لیاقت گورنمنٹ ڈگری کالج شامل ہیں۔ حسینی صاحبؒ کی علمی و ادبی خدمات میں چار سال تک روزنامہ جسارت اور روزنامہ انجام میں کالم نگاری بھی شامل ہے۔ متعدد مواقع پر آپؒ نے فرمایا کہ روزنامہ جسارت میں انہوں نے اُس دور میں ادبی کالم لکھے جب مشفق خواجہ مرحوم نے جسارت میں لکھنا بند کردیا۔ آپؒ کی علمی و ادبی کاوشوں میں اسلامی نظام (جس پر پاکستان کے مرحوم صدر جنرل ضیاء الحق نے اپنی پسندیدگی کا اظہار ایک خط کے ذریعہ کیا تھا)، تصوف کی قدیم و نایاب کتاب نور الحقیقت کی ترتیب، تسہیل و تحشیہ (جس پر مفسرِ قرآن حضرت جسٹس پیر کرم شاہ ازھریؒ نے تقریظ لکھی تھی)، اسلام کی بنیادی تعلیمات (جو انٹرمیڈیٹ، آرٹس، کامرس اور سائنس کے طلبہ کے لیے بیحد مفید ہے)، فارسی مخطوطہ شاہد الوجود کا ترجمہ و تحشیہ، سلسلہ عالیہ قادریہ ملتانیہ تین بزرگوں یعنی حضرت شاہ سید احمد عارف حسینی القادری الملتانی المعروف بہ نکتہ نما محرمؔ قدس سرہ العزیز، حضرت شاہ سید پیر حسینی القادری الملتانی محققؔ قدس سرہ العزیز اور حضرت شاہ سید عبدالرحیم حسینی القادری الملتانی خادمؔ قدس سرہ العزیز کے عارفانہ کلام ’صحنِ وحدت‘ کی ترتیب و تدوین کے علاوہ شعری مجموعہ موجِ خیال شامل ہے جو زیور طبع سے آراستہ و پیراستہ ہوکر منصہ شہود پر آچکی ہیں۔ غیر مطبوعہ کتب میں سوانح حسین شہید سہروردی، شعلہ مقالی، الاحزاب، مباحثاتی تقریریں، مقالاتِ حسینی اور تلخیص و ترجمہ رسالہ قشیریہ شامل ہیں۔
یہاں ہم موجِ خیال سے چند منتحب رباعیات پیش کرتے ہیں جن کے مطالعے سے اندازہ ہوگا کہ وہ حالات حاضرہ کو کس نظر سے دیکھتے تھے۔
افلاس نہیں دولت و زر کا افلاس افلاس نہیں رزق و ثمر کا افلاس
قوموں کی تباہی کا سبب پہنچانو افلاس ہے وہ فکر و نظر کا افلاس
اب فتح و ظفر کی ہے علامت پیسا ہر گام پہ آثارِ سعادت پیسا
تعلیم و سیادت کبھی ہوں گے معیار اس دور کا معیارِ شرافت پیسا
گہوارنہ غفلت میں پلے جاتے ہو فطرت کے مقاصد سے ٹلے جاتے ہو
دنیا میں کوئی کام تو کرتے جائو
ہوٹل ہے جو کھاپی کے چلے جاتے ہو
گو جذبہ? خدمت تو بہت عالی ہے
خادم کا مگر ہاتھ سدا خالی ہے
کیا اجر ملے دیکھیے عقبیٰ میں کل
دنیا میں تو خدمت کا صلہ گالی ہے
بوقت تدفین راقم الحروف نے دیکھا کہ اسی مسجد کی شمالی دیوار کے سائے میں جامعہ ملیہ کے بانی ڈاکٹر محمود حسین خان، ان کی اہلیہ اور معمار جامعہ ملیہ ماسٹر عبدالحی آسودہ? خاک ہیں اور ڈاکٹر محمود حسین مرحوم کے رفقاء میں صرف حسینی صاحبؒ کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ جس مسجد کی خدمت انہوں نے تاوقتِ آخر کی اُس کی جنوبی دیوار کے سائے میں آپؒ کی آپؒ کی اہلیہ اور آپؒ کے فرزند اکبر کی آخری آرامگاہیں ہیں۔ جہاں تک ان سطور کے عاجز راقم کا تعلق ہے جب سے حسینی صاحبؒ نے دنیا سے کوچ کیا ہے، زندگی میں ایک بڑی کمی محسوس ہوتی ہے۔ کوئی دن نہیں گزرتا کہ ان کی بلند اخلاقی، شفقت، محبت، وضع داری، جذبہ? خدمت و خیر خواہی اور عزم و عزیمت کے واقعات یاد نہ آتے ہوں۔ ساتھ ہی ناصر کاظمی کا یہ نہ بھولنے والا شعر بھی بے اختیار یاد آجاتا ہے:
جنہیں ہم دیکھ کر جیتے تھے ناصرؔ
وہ لوگ آنکھوں سے اوجھل ہوگئے ہیں