پرگیہ ٹھاکر کی ذہنیت

   

Ferty9 Clinic

اب کیا کریں گے ترک تغافل کی آرزو
طولِ حیاتِ شوق کا امکان تو گیا
پرگیہ ٹھاکر کی ذہنیت
بی جے پی بھوپال رکن پارلیمنٹ پرگیہ ٹھاکر جب سے انتخابی میدان میں آئی تھیں اورجس وقت سے وہ لوک سبھا کیلئے منتخب ہوچکی ہیں اس وقت سے اپنے متنازعہ بیانات کی وجہ سے سرخیوں میں آتی جا رہی ہیں۔ ویسے بھی وہ مالیگاوں کے 2008 بم دھماکوں کے مقدمہ میں ملزم ہیں اور ضمانت پر رہا ہوئی ہیں۔ پرگیہ سنگھ ٹھاکر پہلے اپنے مقدمہ اور بم دھماکوں کی وجہ سے سرخیوں میں رہی تھیں اور اب وہ اپنی بیان بازیوں کی وجہ سے سرخیوں میں جگہ حاصل کر رہی ہیں۔ ان کے بیانات ان کی ذہنیت کو آشکار کرتے ہیں۔ پرگیہ ٹھاکر نے انتخابی مہم کے دوران گاندھی جی کے قاتل ناتھو رام گوڈسے کی ستائش کی تھی جس پر کافی ہنگامہ کھڑا ہوا تھا اور الیکشن کمیشن کو مداخلت کرتے ہوئے ان کی انتخابی مہم پر تین دن کیلئے امتناع عائد کیا گیا تھا ۔ اب جبکہ وہ بھوپال حلقہ کی نمائندگی کیلئے منتخب ہوچکی ہیں تو وہ ایسا لگتا ہے کہ اپنے آپ کو عوام سے بالاتر سمجھنے لگی ہیں اور عوام کو معمولی رعایا تصور کر رہی ہیں۔ ان کا یہ بیان کہ وہ عوام کی نالیاںصاف کرنے یا بیت الخلا کی صفائی کیلئے منتخب نہیںہوئی ہیںاور جس کام کیلئے منتخب ہوئی ہیں وہ کام ایمانداری کے ساتھ کرینگی ۔ یہ در اصل سادھوی پرگیہ ٹھاکر کی حاکمانہ ذہنیت کو آشکار کرتا ہے اور عوام میں ایک طرح کی تفریق کو فروغ دیتا ہے ۔ اس کے علاوہ اس بیان سے خود نریندر مودی حکومت کی صفائی مہم سوچھ بھارت ابھیان پر بھی سوال پیدا ہوتا ہے ۔ ایک طرف سارے ہندوستان میں مودی حکومت کی جانب سے سوچھ بھارت مہم چلائی جا رہی ہے ۔ سماج کے کئی طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد کو اس مہم سے راست وزیر اعظم جوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہر گوشے سے یہ پیام جاری کئے جا رہے ہیںکہ صفائی پر دھیان دینے کی ضرورت ہے اور ماحول کو گندگی سے پاک رکھا جانا چاہئے لیکن پرگیہ سنگھ ٹھاکر اپنے بیانات کی وجہ سے ایسی مہم کی ہی دھجیاں اڑاتی نظر آ رہی ہیں۔ پرگیہ ٹھاکر کی ذہنیت در اصل ایسی لگتی ہے کہ وہ عوام سے کہیں بالاتر ہیں اور عوام ان کی خدمت کیلئے ہیں وہ عوام کی خدمت کیلئے منتخب نہیں ہوئی ہیں۔ یہ انتہائی افسوسناک ذہنیت کہی جاسکتی ہے ۔
پرگیہ ٹھاکر نے جو بیان دیا ہے ایک طرح سے یہ ان کی ناتجربہ کاری کا نتیجہ ہے ۔ یہ ہمارے لئے انتہائی افسوسناک صورتحال ہے کہ ہمارے ملک میں عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے اکثر عوامی نمائندے کامیابی کے بعد اسی ذہنیت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ وہ عوام کو نالی کے کیڑے سمجھنے لگتے ہیں۔ ان سے سیدھے منہ بات نہیں کی جاتی اور اپنے آپ کو عوام کا داتا اور آقا سمجھنے لگتے ہیں۔ عوام کے کاموں سے انہیں کوئی دلچسپی نہیںہوتی بلکہ وہ خود کو ہر قانون سے اور ہر ذمہ داری سے بالاتر سمجھتے ہوئے ہر طریقے سے دولت جمع کرنے اور سماج میں اپنے رتبہ اور مقام کو بلند کرنے کی کوششوں میں ہی جٹ جاتے ہیں۔ ان کی سرگرمیاں کیا کچھ ہوتی ہیں وہ عوام کے سامنے نہیں آتیں بلکہ وہ عوام میں خود کو انتہائی صاف و شفاف کردار کے حامل فرد کے طور پر پیش کرتے ہیں لیکن حقیقت میں ایسا ہوتا نہیں ہے ۔ ملک کی مختلف ریاستوں میں ایسے کئی واقعات پیش آتے رہے ہیں جو اخبارات اور ٹی وی چینلس پر پیش بھی ہوئے ہیں جن میںعوام کے ووٹوں سے منتخب نمائندوں نے عوام کے ساتھ انتہائی ناذیبا سلوک کیا ہے۔ اترپردیش میں ایک رکن اسمبلی عصمت ریزی کے الزام میںجیل گئے ۔ مدھیہ پردیش میں ایک رکن اسمبلی نے ایک میونسپل عہدیدار کی سر عام پٹائی کردی ۔ ایک وزیر موصوف نے ایک باحوصلہ پولیس عہدیدار کو کھری کھوٹی سنادی ۔
یہ ساری صورتحال عوام کیلئے لمحہ فکر ہے ۔ عوام اپنے ووٹ کے ذریعہ ایسے افراد کو منتخب کرتے ہوئے قانون سازی کرنے والے اداروں تک پہونچاتے ہیں اور یہ لوگ عوام کی نمائندگی کرنے کی بجائے اپنی انا کو ترجیح دیتے ہیں۔ اپنے مفادات کی تکمیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اپنی اولادوں کو بے لگام گھوڑوں کی طرح چھوڑ دیتے ہیں اور وہ قانون کی دھجیاںاڑاتے پھرتے ہیں۔ بات پرگیہ ٹھاکر کی ہو یا پھر ان جیسے دوسرے عوامی منتخب نمائندوں کی ہو یہ ان کی ذہنیت کا قصور ہے ۔ اصل مسئلہ اس طرح کی ذہنیت پر قابو پانا ہے اور اس میں عوام کا بھی ایک اہم رول ہوسکتا ہے ۔ انہیں جذباتیت کا شکار ہوئے بغیر اخلاق و کردار کے حامل اور عوامی مفادات کو ترجیح دینے والے نمائندوںکو منتخب کرنا چاہئے ۔