پرگیہ ٹھاکر کے ریمارکس اور بی جے پی

   

خود تمھیں چاک گریباں کا شعور آجائے گا!
تم وہاں تک آ تو جائو ہم جہاں تک آگئے
پرگیہ ٹھاکر کے ریمارکس اور بی جے پی
بی جے پی کی رکن پارلیمنٹ پرگیہ سنگھ ٹھاکر آئے دن متنازعہ بیانات دیتے ہوئے سرخیوں میں جگہ بنالیتی ہیں۔ ان کے ریمارکس نہ صرف کسی ایک مخصوص طبقہ کیلئے متنازعہ ہوتے ہیں بلکہ سارے ملک کے عوام کی اکثریت کیلئے بھی تکلیف دہ ہوتے ہیں۔ وہ اپنے بیانات کے ذریعہ ایک طرح سے بابائے قوم گاندھی جی کے قاتلوں کی مدح سرائی کرتی ہیں اور گاندھی جی کے قاتل ناتھو رام گوڈسے کو محب وطن قرار دیتی ہیں۔ ان کے اس طرح کے بیانات کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ پرگیہ سنگھ ٹھاکر کٹر ہندوتوا کا چہرہ بن گئی ہیں۔ وہ مالیگاوں بم دھماکوں کے مقدمہ کا سامنا کر رہی ہیں اور ضمانت پر ہیں۔ انہیںعدالت سے حالانکہ راحت ملی ہے ضمانت کی شکل میں لیکن انہیںا بھی بری نہیں کیا گیا ہے ۔ اس کے باوجود بی جے پی نے کٹر ہندوتوا چہرہ کو اپنا نمائندہ بنانے کا فیصلہ کرتے ہوئے بھوپال سے ٹکٹ دے کر پارلیمنٹ کیلئے منتخب کروایا ۔ یہ بی جے پی کی پالیسی ہمیشہ سے رہی ہے کہ وہ کٹر ہندوتوا چہروں کو ابھار کر ان کے نام پر سیاست کرتی ہے اور ان کے ریمارکس اور تبصروں کی بالواسطہ اور خاموش تائید کے ذریعہ ووٹ بینک کو مستحکم کرنے کی حکمت عملی پر عمل کرتی ہے ۔ جس وقت لوک سبھا انتخابات کی مہم جاری تھی اس وقت بھی پرگیہ ٹھاکر نے متنازعہ ریمارکس کئے تھے ۔ ناتھو رام گوڈسے کو انہوں نے محب وطن قرار دیا تھا ۔ اس وقت بھی بی جے پی نے ان کے بیان سے خود کو الگ کرلیا تھا اور یہ ظاہر کیا تھا کہ ان کی سرزنش کی گئی ہے لیکن ان کے خلاف پارٹی کی سطح پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی تھی جس کی وجہ سے ان کے حوصلے بلند ہوگئے اور اب انہوں نے پارلیمنٹ جیسے ادارہ میں ٹہر کر ناتھورام گوڈسے کو ایک بار پھر محب وطن قرار دیا ہے ۔ ان کا یہ بیان پرگیہ ٹھاکر کی ذہنیت کو ہی آشکار کرتا ہے کہ وہ خود اپنی پارٹی سے سرزنش کے باوجود ناتھو رام گوڈسے کی مدرح سرائی اور اسے حب الوطنی کا سرٹیفیکٹ دینے سے باز نہیں آ رہی ہیں۔ انہیںبی جے پی کی جانب سے کی جانے والی سرزنش کی بھی عملا پرواہ نہیں ہے یا پھر انہیںیہ اندازہ ہے کہ پارٹی کی سرزنش محض دکھاوا ہے اور سنجیدہ نہیں۔
جہاں تک بی جے پی کا سوال ہے وہ اس مسئلہ پر دوہرے معیار اور ڈوغلی پالیسی کو اختیار کئے ہوئے ہے ۔ جب پرگیہ ٹھاکر نے ماضی میںناتھو رام گوڈسے کی ستائش کی تھی اس وقت وزیر اعظم نریندر مودی نے عوام کو گمراہ کرنے کیلئے کہا تھا کہ وہ کبھی پرگیہ ٹھاکر کو معاف نہیںکرسکتے ۔ تاہم پارلیمنٹ کے جاریہ سشن کے دوران ہی پرگیہ ٹھاکر کو دفاع سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کی رکن بنادیا گیا ۔ یہ ایک طرح سے ان کو انعام تھا ۔ تاہم پرگیہ نے ایک بار پھر پارلیمنٹ میںگوڈسے کی ستائش کرتے ہوئے اس انعام پر اظہار تشکر کرنے کی کوشش کی ۔ اپوزیشن کی جانب سے تنقیدوںاور اس کو مسئلہ بنانے پر بی جے پی نے انہیںدفا ع سے متعلق کمیٹی سے علیحدہ کردینے کی سفارش کی اور ان کی سرزنش کی ۔ بی جے پی یہ آنکھ مچولی صرف عوام کو گمراہ کرنے کیلئے کھیل رہی ہے ۔ بی جے پی کو واقعی اگر گاندھی جی کی فکر لاحق ہے تو اسے پرگیہ ٹھاکر کو پارٹی سے خارج کرتے ہوئے لوک سبھا کی رکنیت سے استعفی دلانا چاہئے ۔ بی جے پی کو یہ سمجھنا چاہئے کہ ملک کے عوام کو بیوقوف بنانے کا سلسلہ زیادہ دن جاری نہیںرہ سکتا ۔ تاہم بی جے پی کو اس کی پرواہ نہیں ہے اور وہ کٹر ہندوتوا چہروںکو ابھارنے اور انہیں عوام کے سامنے متنازعہ بیانات کے ذریعہ تشہیر فراہم کرتے ہوئے اپنا ووٹ بینک مستحکم کرنے پر زیادہ توجہ دیتی ہے اوراس کے سامنے ووٹ بینک سے زیادہ کسی چیز کی اہمیت نہیںہے ۔
بی جے پی کے کئی ارکان پارلیمنٹ ایسے ہیں جو گوڈسے کی ستائش کرتے ہیں بلکہ اس کی پوجا کرتے ہیں اور گاندھی جی کے تعلق سے ہتک آمیز اور توہین آمیز ریمارکس کرتے ہیں۔ بی جے پی اس کے باوجود انہیں دوبارہ ٹکٹ دیتی ہے اور ان کے ذریعہ ملک بھر میںاپنے ووٹ بینک کو مستحکم کرتی ہے ۔ اگر بی جے پی واقعی ان ارکان کے خلاف کوئی کارروائی کرتی ہے تو اس کو اپنے ہندوتوا ووٹ بینک سے محروم ہونے کا خطرہ لاحق ہوتا ہے اسی لئے وہ محض دکھاوے کیلئے سرزنش کی باتیںکرتی ہے لیکن حقیقت میںایسا ہوتا کچھ نہیںہے ۔ بی جے پی کو چاہئے کہ وہ گاندھی جی کے تعلق سے اور گوڈسے کے چیلوں کے تعلق سے ڈوغلی پالیسی اختیار کرنے سے گریز کرے اور گوڈسے کی ستائش کرنے والوں کے خلاف سنجیدگی سے کارروائی کرے اور انہیں پارٹی کی صفوں سے نکال کر ان کو قرار واقعی سزائیںدلائے ۔