تیری تعمیر میں خون ہم نے دیا ہے مسلسل
اب آب و ہوا تیری چھوڑ کر ہم کدھر جائیں گے
دہلی اسمبلی انتخابات میںعام آدمی پارٹی کی شکست نے پنجاب میں بھی پارٹی کے مستقبل کے تعلق سے اندیشے پیدا کردئے ہیں۔ کئی گوشوںسے یہ قیاس کیا جا رہا ہے کہ عام آدمی پارٹی پنجاب میں بھی مشکل صورتحال کا شکار ہوگی اور وہاں بھی اسے عوام کے اعتماد سے محروم ہونا پڑسکتا ہے ۔ یہ طئے ہے کہ ایک ریاست میں پارٹی کی شکست کے دوسری ریاست میں اثرات دکھائی دیتے ہیں۔ خاص طور پرا س صورت میں جب پارٹی کو کسی ریاست میں کراری شکست کا سامنا کرنا پڑے تو اس سے دوسری ریاست میں بھی رائے عامہ پرا ثر ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ پارٹی کے قائدین میں بھی اپنے مستقبل کے تعلق سے فکر اور اندیشے پیدا ہوجاتے ہیں اور برسر اقتدار پارٹی کو اپنا اقتدار اور توازن برقرار رکھنا مشکل ہوجاتا ہے ۔ یہی صورتحال عام آدمی پارٹی کو پنجاب میں درپیش آنے والی ہے اور اس کے اندیشوں کا اظہار بھی کیا جانے لگا ہے ۔ دہلی میںشکست کے دو دن بعد ہی عام آدمی پارٹی سربراہ اروند کجریوال نے دہلی کے ارکان اسمبلی کے ساتھ اجلاس منعقدکیا اور صورتحال کا جائزہ لیا ۔ کہا جا رہا ہے کہ پنجاب میں بھگونت مان حکومت کو اپنے ارکان اسمبلی کی ناراضگی کا سامنا ہے ۔ تاہم چونکہ پارٹی کو پنجاب کے ساتھ دہلی میں بھی اقتدار حاصل تھا اس لئے اس ناراضگی کا کھل کر اظہار نہیں کیا گیا تھا ۔ دہلی کے نتائج کا انتظارک یا جا رہا تھا ۔ دہلی میں اگر عام آدمی پارٹی اقدار پر واپسی کرتی تب بھی ناراض قائدین کے حوصلے پست ہوجاتے ۔ تاہم اب جبکہ دہلی میں پارٹی کو شکست ہوگئی ہے اور اس کے سربراہ اروند کجریوال کے علاوہ منیش سیسوڈیا اور ستیندر جین جیسے قائدین کو شکست ہوچکی ہے ایسے میں ناراض ارکان اسمبلی اب کھل کر اپنی سرگرمیاںشروع کرسکتے ہیں۔دبے دبے الفاظ میں پارٹی اور اس کے قائدین کے خلاف بیان بازیاں بھی شروع ہورہی ہیں اور پنجاب میں باغیانہ تیور دکھائی دینے لگے ہیں۔ ایسے میں عام آدمی پارٹی کیلئے پنجاب میں اپنی حکومت اور پارٹی کی ساکھ بچائے رکھنا آسان نظر نہیں آتا ۔ آئندہ چند مہینوں میں پنجاب میں پارٹی کی صورتحال پر خاص طور پر نظر رکھنے کی ضرورت ہوگی ۔
اروند کجریوال جس طرح سے اب تک پارٹی پر اپنی گرفت بنائے ہوئے تھے اور جس طرح سے فیصلے کر رہے تھے وہ شائد اب وہ جاری نہیں رکھ پائیں گے ۔ انہیںاس معاملے میں ارکان اسمبلی کی رائے لینے کی ضرورت پڑے گی ۔ اروند کجریوال اب تک عوام سے رائے حاصل کرنے کے دعوے کرتے رہے تھے ۔ انہوں نے ہر فیصلے کو عوامی رائے سے کیا گیا فیصلہ قرار دیا تھا ۔ اب تک وہ اپنے فیصلوں پر عمل کرتے رہے تھے کیونکہ انہیں عوام کی تائید ملتی رہی تھی ۔ ایسے میں پارٹی کے قائدین کجریوال پرا ثرا نداز ہونے کی کوشش نہیں کیا کرتے تھے تاہم اب صورتحال اچانک ہی تبدیل ہوگئی ہے ۔ نہ صرف یہ کہ پارٹی کو دہلی میںاقتدار نہیں ملا بلکہ خود کجریوال بھی اپنی اسمبلی کی نشست بچانے میں کامیاب نہیں ہوسکے ۔ ایسے میں اب کجریوال پارٹی قائدین اور ارکان اسمبلی پر اپنی رائے مسلط کرنے اور ہٹ دھرمی دکھانے کا سلسلہ جاری نہیںرکھ سکتے ۔ انہیں اب ارکان اسمبلی اور دوسرے قائدین کی رائے کی نہ صرف بغور سماعت کرنی ہوگی بلکہ انہیں اس رائے کا احترام بھی کرنا پڑے گا ۔ من مانی انداز میںفیصلے کرنے کی بجائے انہیں مشاورت کا راستہ اختیار کرنا پڑے گا ۔ اگر کجریوال ایسا نہیں کرتے اور اپنی من مانی ہی چلاتے رہیں تو پھر ان کیلئے پنجاب میں بھی پارٹی کے اقتدار اور اس کے مستقبل کو بچائے رکھنا آسان نہیں ہوگا اور انہیں وہاں بھی عوام کی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑے گا اور کجریوال فی الحال عوامی ناراضگی مول لینے کے متحمل نہیں ہوسکتے ۔
دہلی میں عام آدمی پارٹی کی شکست کے بعد پارٹی کے بانی قائدین میںشامل ایڈوکیٹ پرشانت بھوشن نے ایک ریمارک کیا تھا ۔ انہوں نے کجریوال کو ہٹ دھرم قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ دہلی کی شکست در اصل عام آدمی پارٹی کے صفائے کا آغاز ہے ۔ پرشانت بھوشن کچھ وقت پارٹی میںرہنے کے بعد مستعفی ہوگئے تھے ۔ پارٹی کی داخلی صورتحال کا انہیں اندازہ ہے اور وہ سپریم کورٹ کے ایک معروف وکیل بھی ہیں۔ ان کا تجزیہ اہمیت کا حامل ہوسکتا ہے اور اس بات کو خاص طور پر کجریوال کو سمجھنے کی ضرورت ہوگی ۔ کجریوال اس حقیقت کو جتنی جلدی سمجھیں اور اپنے طرز عمل میں تبدیلی لائیں یہ ان کیلئے بہتر ہوسکتا ہے ۔