چند ہفتوں کے سکون کے بعد ایسا لگتا ہے کہ کانگریس میں ایک بار پھر مسائل پیدا ہونے لگے ہیں اور یکے بعد دیگر ریاستوں میں پارٹی کے اختلافات اور داخلی خلفشار سامنے آتے جا رہے ہیں۔ پارٹی ہائی کمان کے فیصلوں اور ریاستی قیادت سے ناراضگی جتانے میں اب کانگریس قائدین پہلے کی طرح سرگرم ہونے لگے ہیں۔ سب سے پہلے مدھیہ پردیش میں تو جیوتر آدتیہ سندھیا کی ناراضگی نے بغاوت کی شکل اختیار کرلی اور پھر انہوں نے پارٹی میں پھوٹ ڈالتے ہوئے بی جے پی کو اقتدار حاصل کرنے میں مدد کی اور بدلے میں انہیں مرکزی وزارت حاصل ہوگئی ۔پارٹی کے اقتدار والی ریاست راجستھان میں بھی حالات کچھ وقت کیلئے کشیدہ ہوگئے تھے اور ایسا لگ رہا تھا کہ سچن پائلٹ بھی جیوتر آدتیہ سندھیا کے نقش قدم پر چلیں گے تاہم اس وقت راہول گاندھی اور پرینکا گاندھی کی کوششوں سے سچن پائلٹ کو کسی طرح منالیا گیا ۔ چند دن قبل پنجاب میں حالات اچانک ہی بدل گئے اور وہاں پارٹی کو اپنے چیف منسٹر کو تبدیل کرنا پڑا ۔ جو طریقہ کار وہاں اختیار کیا گیا تھا وہ کئی سوال پیدا کرنے والا تھا تاہم پارٹی نے چیف منسٹر کو تبدیل کردیا اور ایک نئے چیف منسٹر کی حلف برداری بھی عمل میں آگئی ۔ ابھی پنجاب کا مسئلہ پوری طرح تھما بھی نہیں ہے کہ پارٹی کے اقتدار والی ریاست چھتیس گڑھ میں بھی صورتحال بدلنے لگی ہے اور وہاں بھی چیف منسٹر کی تبدیلی کیلئے اصرار ہونے لگا ہے ۔ ویسے تو کچھ دن سے ریاستی کانگریس میں اختلافات ابھرتے جا رہے ہیں تاہم اب ایسا لگتا ہے کہ یہاں بھی مسئلہ شدت اختیار کر جائیگا ۔ ریاستی وزیر صحت ٹی ایس سنگھ دیو نے وزارت اعلی کیلئے دعویداری پیش کردی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ 2018 میں ہی یہ فارمولا طئے پاگیا تھا اور اس سے پارٹی قیادت اور چیف منسٹر بھوپیش باگھیل نے اتفاق بھی کیا تھا ۔ اب ٹی ایس سنگھ دیو کے گروپ کی جانب سے چیف منسٹر کی تبدیلی کیلئے دباو بنانے کی حکمت عملی بھی اختیار کی جا رہی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ سنگھ دیو کے حامیوں کے خلاف پولیس کی جانب سے مقدمات درج کرتے ہوئے انہیں ہراساں کیا جا رہا ہے ۔
گذشتہ پارلیمانی انتخابات سے قبل کانگریس نے راجستھان ‘ مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں اقتدار حاصل کیا تھا ۔ مدھیہ پردیش میں تو وہ اقتدار سے محروم ہوگئی ہے اور جیوتر آدتیہ سندھیا نے بی جے پی اقتدار کی راہ ہموار کردی تھی ۔ اب چھتیس گڑھ میں بھی حالات بگڑنے لگے ہیں تاہم یہاں پارٹی کو بی جے پی یا کسی اور اپوزیشن سے مسئلہ نہیں ہے بلکہ پنجاب کی طرح داخلی اختلافات سے پارٹی کو مسائل درپیش ہو رہے ہیں۔ صورتحال ایسی ہوگئی ہے کہ اس کا انتخابات پراثر ہوسکتا ہے ۔ داخلی خلفشار اور اختلافات سے پارٹی کو فائدہ نہیں ہوگا بلکہ اس سے پارٹی کے انتخابی امکانات ہمیشہ ہی متاثر ہوئے ہیں۔ اس بات کو پارٹی قیادت کو بھی ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے اور خود پارٹی کے ریاستی قائدین کو بھی اس کا جائزہ لینا چاہئے ۔ ملک بھر میں پہلے ہی کانگریس کی حالت کمزور ہے ۔ اس کے کئی سینئر قائدین پارٹی سے مایوسی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ کئی تو پہلے ہی پارٹی تبدیل کرچکے ہیں اور کئی دوسرے بھی پارٹی چھوڑنے کیلئے پر تول رہے ہیں۔ چند ہی ریاستوں میں کانگریس کا اقتدار رہ گیا ہے ۔ وہاں بھی اگر اپوزیشن کو موقع دیتے ہوئے اقتدار گنوادیا جائے تو یہ کانگریس پارٹی کے حق میں بہتر نہیں ہوگا ۔ مخلوط حکومتیں ہوں یا پھر خود کانگریس کی تنہا حکومت ہو سبھی کو استحکام بخشنے کی حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ آئندہ جب کبھی انتخابات ہوں ان میں پارٹی کے امکانات متاثر ہونے نہ پائیں اور اسے اقتدار سے محروم ہونا نہ پڑے ۔
چھتیس گڑھ کیلئے پارٹی قیادت سے جس فارمولے کی منظوری کے دعوے کئے جا رہے ہیں ان کو پارٹی کو ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے ۔ آئندہ انتخابات کو ذہن نشین رکھتے ہوئے پارٹی کو اپنی حکمت عملی تیار کرنی چاہئے ۔ جو داخلی اختلافات ہیں انہیں پوری سنجیدگی اور صلاحیت کے ساتھ دور کرنے کی کوششیں کی جانی چاہئیں۔ پارٹی قائدین کو ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنے کی تلقین کرنے کی ضرورت ہے ۔ داخلی اختلافات کو ممکنہ حد تک کم کرنے بلکہ ختم کرنے کیلئے جامع منصوبہ اختیار کیا جانا چاہئے ۔ نہ صرف ریاستی اسمبلی انتخابات بلکہ آئندہ عام انتخابات کو بھی ذہن میںرکھتے ہوئے فیصلے کرنے چاہئیں۔
