پھر سے لاک ڈاون کے اندیشے

   

Ferty9 Clinic

سنبھلنے کے لئے گرنا پڑا ہے
ہمیں جینا بہت مہنگا پڑا ہے
پھر سے لاک ڈاون کے اندیشے
تلنگانہ میں کورونا وائرس کی شدت نے عوام کو جہاں خوفزدہ کردیا ہے وہیں اب حکومت بھی کم از کم گریٹر حیدرآباد کے حدود میں دوبارہ لاک ڈاون کے تعلق سے غور کر رہی ہے ۔ عوام میں بھی یہ تاثر عام تھا کہ دوبارہ لاک ڈاون کرتے ہوئے کورونا کے پھیلاو کو روکنے کیلئے پہل ہونی چاہئے ۔ حکومت نے حالانکہ کئی مرتبہ یہ واضح کیا تھا کہ اب ریاست میں مزید کوئی لاک ڈاون نہیں ہوگا ۔ حکومت کو سرکاری آمدنی کا مسئلہ درپیش تھا جو بہت زیادہ حد تک کم ہوگئی تھی تاہم جب سے لاک ڈاون میں نرمی دی گئی تھی اس وقت سے بتدریج ریاست کی آمدنی میں اضافہ ہونے لگا ہے ۔ اس کو دیکھتے ہوئے حکومت کا یہ کہنا تھا کہ کورونا اگر مزید شدت اختیار کرتا ہے تب بھی حکومت اس سے نمنے کیلئے پوری طرح سے تیار ہے اور لاک ڈاون لاگو نہیں کیا جائیا ۔ تاہم آج چیف منسٹر نے اشارہ دیا ہے کہ حکومت صورتحال کو دیکھتے ہوئے آئندہ تین تا چار دن میں دوبارہ لاک ڈاون لاگو کرنے کے تعلق سے غور کریگی ۔ کابینہ کے اجلاس میںاس تعلق سے فیصلہ کیا جائیگا ۔ در اصل ریاست میں کورونا وائرس کے پھیلاو میں تیزی آگئی ہے ۔یہ تاثر عام ہوتا جا رہا ہے کہ کمیونٹی ٹرانسمیشن کا مرحلہ شروع ہوگیا ہے اسی وجہ سے متاثرین کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا ہے ۔ اس کے علاوہ ریاست بھر میںاور خاص طور پر شہر حیدرآباد میں اموات میں بھی بے تحاشہ اضافہ ہوگیا ہے ۔ لوگ انتقال کی اطلاعات سن کر گھبرانے لگے ہیں۔ اس صورتحال میں اب حکومت دوبارہ لاک ڈاون لاگو کرنے کے تعلق سے غور کر رہی ہے ۔ لاک ڈاون اگر دوبارہ لاگو کیا جاتا ہے تو اس سے پہلے حکومت کو لاک ڈاون کے اثرات کو کم سے کم کرنے کیلئے اقدامات کرنے کی بھی ضرورت ہے ۔ جس طرح ہر فیصلے کے دو پہلو اور مختلف اثرات ہوسکتے ہیں اسی طرح لاک ڈاون کے بھی مختلف اثرات ہونگے ۔ یقینی طور پر اس سے کورونا کے پھیلاو کو روکنے میں مدد مل سکتی ہے تاہم اس کے ساتھ ہی غریب عوام کے گذر بسر کا مسئلہ بھی مشکل کا شکار ہوسکتا ہے ۔ حکومت کو اس تعلق سے غور کرنا چاہئے ۔جہاں مرض سے کسی کو متاثر نہیں ہونے دیا جانا چاہئے وہیں کسی کو بھوک کی شدت کا بھی احساس نہیں ہونا چاہئے ۔
حکومت اپنی جانب سے جو فیصلہ کرنا چاہتی ہے وہ ضرور کرسکتی ہے لیکن جو صورتحال خاص طور پر گریٹر حیدرآباد کے حدود میں ہیں وہ انتہائی خطرناک ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ یہ صورتحال واقعی لاک ڈاون کی متقاضی ہو لیکن عوام کو اپنے طور پر احتیاط کا دامن ہرگز نہیں چھوڑنا چاہئے ۔ جو ہدایات اور اپیلیں طبی ماہرین اور حکومت سے کی جا رہی ہیں ان کو نظر میں رکھتے ہوئے ان پر پوری طرح سے عمل کرنے کی ضرورت ہے ۔ عوام کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ اگر ایک وقت کی روٹی ملنی مشکل ہوجائے تو گذارہ ہوسکتا ہے لیکن اگر خدانخواستہ کوئی اس وائرس کا شکار ہوجائے تو سارے خاندان کا جینا دوبھر ہوسکتا ہے ۔ خاندان میں ایک مریض بھی دوسروں کیلئے مسائل کا باعث ہوسکتا ہے ۔ خود مریض کیلئے ذہنی کوفت اور خوف کا جو ماحول پیدا ہوگا وہ بھی ناقابل بیان ہی ہوتا ہے ۔ ضر وریات زندگی ساری عمر تک برقرار رہنے والی ہیں اور ان کی تکمیل انسان اپنی آخری سانس تک بھی شائد ہی کر پاتا ہو لیکن اپنی اور اپنے اہل خانہ کی زندگیوں کو بچانا سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہونا چاہئے ۔ غیر ضروری مصروفیات کو ترک کرنا سب سے اولین ترجیح ہونی چاہئے ۔ جتنا ممکن ہوسکے گھروں میں رہنے کو ترجیح دی جائے اور سیاسی اختلاط سے بچاجائے ۔ صفائی وغیرہ کا خاص خیال رکھا جائے ۔ اس کی اسلام نے بھی تاکید کی ہے ۔ وقت کی ضرورت بھی یہی ہے کہ سب سے پہلے اپنی اور اپنے افراد خاندان کی صحت اور زندگیوں کو بچانے کیلئے کمربستہ ہوجائیں۔
عوام کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ غیر ضروری اندیشوں کا شکار بھی نہ ہوں۔ خوف کو طاری ہونے کا موقع نہ دیں اور اپنے آپ کو اور اپنے اہل خانہ کو ذہنی طور پر مستحکم بنائیں اور اپنے آپ کو فٹ رکھنے کی کوشش کریں۔ قوت مدافعت کو بڑھانے والی غذائیں استعمال کریں۔ ضعیف العمر افراد اور کم عمر بچوں کو خاص توجہ کے ساتھ محفوظ رکھیں۔ اس بات کو ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے کہ اپنی صحت اور اپنی زندگی کا تحفظ اب خود عوام کے ہاتھ میں رہ گیا ہے ۔ حکومتوں نے تو اس سے خود کو بری الذمہ کرلیا ہے ۔ اب اگر لاک ڈاون لگتا بھی ہے تو اس کی پابندی کی جائے ۔ اگر لاک ڈاون نہ لگے تب بھی تمام تر احتیاط کو ملحوظ خاطر رکھا جائے اور اس موذی اور خطرناک وائرس کو مزید پھیلنے سے روکا جائے ۔